دریاؤں، آبی گزرگاہوں پر تعمیرات، پاکستان کیلئے سیلاب ’نیا معمول‘ بن جائے گا، سائنسی جریدہ
معروف سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق نے 2022 کے سیلاب کو مستقبل میں بڑھتے ہوئے سیلابی خطرات کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو مستقبل میں شدید بارشوں اور انسانی ترقیاتی سرگرمیوں کی وجہ سے زیادہ کثرت اور شدت کے ساتھ سیلابوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، خاص طور پر وہ ترقیاتی سرگرمیاں جو دریاؤں کے کنارے اور قدرتی سیلابی میدانوں میں ہو رہی ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ تحقیق سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوئی ہے، جو 2022 کے بے مثال سیلاب کا تفصیلی جائزہ لیتی ہے، جس میں بارش سے پیدا ہونے والے شہری سیلاب اور دریاؤں میں سطح آب کی بلندی کے حالات، بالائی علاقوں میں برف کی مقدار میں تبدیلی اور قدرتی مناظر میں انسانی مداخلت جیسے عناصر کا گہرا مطالعہ شامل ہے۔
تحقیق کے مطابق پاکستان کے دریائے سندھ سے متصل میدانی علاقے میں 1950 سے 2012 کے درمیان 19 بڑے سیلابی سانحات پیش آئے، جن سے 5 لاکھ 99 ہزار 459 مربع کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا، 11 ہزار 239 افراد ہلاک ہوئے اور 39 ارب ڈالر سے زائد کے معاشی نقصانات ہوئے۔
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ان سیلابوں کی بڑی وجہ مون سون کی شدید بارشیں تھیں اور ان میں سے 10 سیلاب 2000 کے بعد کے عرصے میں پیش آئے۔
2022 میں طویل خشک سالی کے بعد، پری مون سون بارشیں 2021-1951 کے طویل مدتی اوسط سے 111 فیصد زیادہ تھیں، جس کے نتیجے میں دریائے سندھ خشک ہونے سے بنجر ہونے والی زمین کی نمی میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔
تحقیق کے مطابق 2022 مون سون بارشیں معمول سے 547 فیصد زیادہ تھیں اور جولائی میں ہفتہ وار مجموعی بارش 200 ملی میٹر تک پہنچ گئی تھی، جب کہ زمین پہلے ہی نم تھی، دریاؤں کے بالائی علاقوں جیسے چناب، جہلم، اور راوی کے کیچمنٹ ایریاز میں پری مون سون اور مون سون کے دوران بالترتیب 33 فیصد اور 41 فیصد زیادہ بارش ہوئی۔
مزید بتایا گیا کہ اگست 2022 میں سکھر بیراج پر پانی کا بہاؤ تاریخی اوسط سے 170 فیصد زیادہ تھا، جس کی وجہ بارش کے ساتھ ساتھ برف کے تیزی سے پگھلنے جیسے عوامل تھے۔
ماحولیاتی تبدیلی میں انسانی عوامل
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ دریائی سیلاب کی شدت میں اضافہ انسانی سرگرمیوں، شدید پانی کے بہاؤ اور پہلے سے بھیگی زمین جیسے عوامل سے ہوا۔
2022 کے سیلاب کے دوران دریا کا پانی اس سطح سے بھی 2.4 سے 2.79 میٹر زیادہ ہو گیا جو 2010 اور 2015 کے تاریخی سیلابوں میں دیکھی گئی تھی۔
مثال کے طور پر جون 2022 میں سکھر بیراج پر پانی کا بہاؤ 2021-1994 کی طویل اوسط سے 32 فیصد کم تھا، لیکن بعد کے مہینوں میں یہ 26 فیصد، 105 فیصد اور 170 فیصد تک بڑھ گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ دریا کے کناروں کے ساتھ زمین کا استعمال، خاص طور پر زرعی سرگرمیوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے خطرات میں اضافہ ہوا، مثلاً، لاڑکانہ شہر دریائی کناروں کی طرف بڑھتا گیا اور وہاں کا زرعی رقبہ 2001 سے 2022 کے دوران 37 ہزار مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 47 ہزار 500 مربع کلومیٹر ہو گیا۔
برف باری اور بارش کا امتزاج، خطرے میں اضافہ
ایک اور بڑا عنصر جو ان سیلابوں میں مددگار ثابت ہوا وہ بالائی علاقوں میں برف کا تیزی سے پگھلنا اور برف پر بارش کے واقعات تھے، جنہوں نے پانی کی مقدار کو یکدم بڑھا دیا۔
’آگ پر تیل ڈالنا‘
تحقیق کے مصنفین ڈاکٹر علی مرچی اور ڈاکٹر عرفان ارشد کے مطابق اگر دنیا میں گرین ہاؤس گیسز کا اخراج زیادہ رہا تو پاکستان میں سیلاب کے خطرات میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر جنوبی پاکستان میں 5 دن کے شدید بارش کے واقعات میں سال 2100 تک 58 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر 5 دن میں 400 ملی میٹر سے زیادہ بارش کے واقعات کی تعداد بڑھ جائے گی، اور ایک دن میں سب سے زیادہ بارش (RX1day) میں 44 فیصد اضافہ متوقع ہے، جو پہلے ہی کمزور علاقوں کو مزید نقصان دہ صورتحال میں ڈال سکتا ہے۔
حل اور تجاویز
محققین نے کہا کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان خطرات کے سدباب کے لیے موافقتی اقدامات کرے، قدرتی سیلابی میدانوں کو بحال کیا جائے، نکاسی آب کے نظام میں بہتری لائی جائے، دریاؤں کے کنارے کی ترقیاتی سرگرمیوں کو روکا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان عالمی حدت کو تنہا ختم نہیں کر سکتا، لیکن مقامی سطح پر اخراج میں کمی اور بہتر زمین کے استعمال کی منصوبہ بندی کے ذریعے نقصان کو کم اور جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
مصنفین نے شہری اور دیہی علاقوں میں نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم شہری علاقوں میں بارش کے پانی کی نکاسی کے نظام کو درست کر لیں تو 2022 جیسے تباہ کن سیلابوں سے بچا جا سکتا ہے، یہ ایسے عملی اقدامات ہیں جو فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں۔
آخر میں انہوں نے پیشگی انتباہی نظام (ارلی وارننگ سسٹم) کی بہتری پر بھی زور دیا۔