پاکستان

ایل ڈی آئی کمپنیوں کے ذمے 80 ارب کے بقایا جات کی وصولی پر بریک تھرو نہ ہوسکا

لائسنس کی تجدید کے سلسلے میں بھی پیش رفت نہیں ہوسکی، نادہندہ ایل ڈی آئی کمپنیوں کے آپریشنز بند کرنے سے متعلق فیصلہ اگست میں متوقع، ذرائع

لانگ ڈسٹینس اینڈ انٹرنیشنل (ایل ڈی آئی) کمپنیوں سے 80 ارب بقایاجات کی وصولی اور لائسنس کی تجدید سے متعلق بریک تھرو نہ ہوسکا،نادہندہ ایل ڈی آئی کمپنیوں کے آپریشنز بند کرنے سے متعلق فیصلہ اگست میں متوقع ہے۔

ایل ڈی آئی کمپنیوں سے 80 ارب روپے کے بقایاجات کی وصولی اور لائسنس کی تجدید کے معاملے پر بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، نادہندہ ایل ڈی آئی کمپنیوں کے آپریشنز بند کیے جائیں گے یا نہیں، فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بقایا جات کی ادائیگی اور لائسنسوں کی تجدید سے متعلق بریک تھرو نہیں ہوسکا، بقایاجات اور لائسنسوں کی تجدید سے متعلق پی ٹی اے کا فیصلہ اگست میں متوقع ہے، پی ٹی اے نے ایل ڈی آئی کمپنیوں کا موقف سن لیا ہے۔

پی ٹی اے کی دستاویز کے مطابق پی ٹی اے نے اپریل سے مئی تک 8 ایل ڈی آئی کمپنیوں کا موقف سنا، کمپنیوں کے ذمے 24 ارب روپے کی بنیادی رقم اور 56 ارب روپے کے لیٹ پیمنٹ سرچارج واجب الاد ہیں۔

9 میں سے 5 ایل ڈی آئی کمپنیاں مکمل بنیادی رقم اقساط میں ادا کرنے کیلئے تیار ہیں، رقم اقساط میں ادا کرنے کی رضامند پانچ کمپنیوں کے ذمے 8.2 ارب روپے بنیادی رقم ہے، چار ایل ڈی آئی کمپنیاں بنیادی رقم اقساط میں ادا کرنے کیلئے بھی تیار نہیں، ان کمپنیوں کے ذمے 15.96 ارب روپے کی بنیادی رقم واجب الادا ہے۔

کل 13 ایل ڈی آئی کمپنیوں میں سے 4 کمپنیوں کے لائسنسوں کی تجدید 2024 میں کی گئی تھی، سات ایل ڈی آئی کمپنیوں کے لائسنس کی میعاد 2024 میں ختم ہوگئی، دو ایل ڈی آئی کمپنوں کے لائسنس کی معیاد 2025 اور 2026 میں ختم ہونی ہے۔

ایل ڈی آئی کمپنیوں کے ذمے یونیورسل سروس فنڈ کے اے پی سی چارجز گزشتہ کئی سالوں سے واجب الادا ہیں،ایل ڈی آئی کمپنیوں نے واجبات کی ادائیگی سے متعلق عدالت سے اسٹے آرڈر لے رکھے ہیں۔

وزارت آئی ٹی نے مذاکرات کے ذریعے ایل ڈی آئی کمپنیوں کے لائسنس کی تجدید کی کوشش کی تھی، وفاقی وزیر آئی ٹی نے ایل ڈی آئی کمپنیوں کو مئی 2025 میں بلا کر ان کا موقف سنا ہے۔

پی ٹی اے دستاویز کے مطابق وزارت آئی ٹی میں ایل ڈی آئی کمپنیوں کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے منٹس فراہم نہیں کیے گئے، پی ٹی اے نے وزارت آئی ٹی کے خط اور عدالت کے فیصلے کی روشنی میں کمپنیوں کا موقف سنا ہے۔