دنیا

غزہ میں غذائی قلت اور بھوک کی پیچیدگیوں سے 35 دن کے نومولود سمیت 2 بچے جاں بحق

35 روزہ شیر خوار نے الشفا ہسپتال، 4 سالہ رزان ابو زاہر نے الاقصیٰ شہدا ہسپتال میں دم توڑا، تازہ اسرائیلی حملوں میں مزید 9 فلسطینی شہید ہوگئے۔

غزہ میں اسرائیل کی ناکہ بندی کے باعث غذائی قلت کا شکار 35 دن کے نومولود سمیت 2 بچے انتقال کرگئے، گزشتہ رات سے جاری اسرائیلی حملوں میں کم ازکم 9 فلسطینی شہید ہوگئے۔

قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی محاصرے اور ایندھن و امدادی سامان کی مسلسل بندش کے باعث نوزائیدہ سمیت 2 بچے بھوک سے جاں بحق ہوگئے، جب کہ اسرائیلی افواج ان افراد پر بھی گولیاں برسا رہی ہیں جو امریکا کی حمایت یافتہ امدادی مراکز پر خوراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جنہیں مقامی طور پر موت کے پھندے قرار دیا جا رہا ہے۔

الشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ 35 روزہ شیر خوار بچہ غذائی قلت کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گیا، یہ بچہ اُن دو افراد میں شامل تھا جو گزشتہ شب اسپتال میں بھوک سے دم توڑ گئے۔

الجزیرہ کے مطابق الاقصیٰ شہدا اسپتال کے ذرائع نے بتایا کہ 4 سالہ فلسطینی بچی رزان ابو زاہر بھی غذائی قلت اور بھوک کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا شکار ہو کر جاں بحق ہو گئی۔

یہ اموات ایسے وقت پر ہوئیں جب غزہ کی وزارت صحت نے خبردار کیا ہے کہ اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز بھوک سے نڈھال مریضوں سے بھر چکے ہیں، جب کہ حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں 17 ہزار بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔

تازہ اسرائیلی حملوں میں امداد کے متلاشی 2 افراد سمیت 9 فلسطینی شہید

دریں اثنا، غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ گزشتہ رات اسرائیلی فضائی حملوں میں غزہ شہر اور جنوبی علاقوں میں کم از کم 7 افراد شہید ہو گئے۔

الجزیرہ نے الشفا اسپتال کے ایک ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ غزہ سٹی کے شمال مغرب میں امداد کے منتظر افراد پر اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 2 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔

الجزیرہ کی رپورٹر ہند خدری نے دیر البلح سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ مئی کے آخر میں امریکا کی حمایت سے قائم کی گئی غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے بعد سے اب تک امدادی مقامات پر 900 سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔

اہلِ خانہ کا یرغمالیوں کی سلامتی کیلئے یقین دہانی کا مطالبہ

ادھر اسرائیل اور حماس کے وفود گزشتہ دو ہفتوں سے غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی اور 10 زندہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بالواسطہ مذاکرات میں مصروف ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے اسرائیلی فوج کی جانب سے دیر البلح کے علاقے میں زمینی کارروائی کے دائرہ کار کو بڑھانے کے اعلان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اہل خانہ کے جاری کردہ بیان میں سوال کیا گیا ہے کہ ’کیا کوئی ہمیں یقین دہانی کرا سکتا ہے کہ اس فیصلے کی قیمت ہمارے پیاروں کی جان سے ادا نہیں کی جائے گی؟‘۔

انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو، وزیر دفاع اور اعلیٰ عسکری حکام سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ غزہ میں یرغمالیوں کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

بیان میں گزشتہ اگست میں چھ یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ ’بدقسمتی سے، تمام دعوؤں اور جھوٹی امیدوں کے باوجود کئی خاندان پہلے ہی اس حقیقت کا سامنا کر چکے ہیں کہ مذاکرات کے سائے میں لڑائی کو وسعت دینے اور جنگی حکمت عملی کے فقدان کا نتیجہ کیا ہوتا ہے‘۔