پاکستان

’ کراچی کی مخدوش عمارتیں ٹک ٹک کرتے بم ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں’

کراچی بھر میں تقریباً 600 عمارتوں کو غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے، جن میں کم از کم 50 عمارتیں انتہائی خطرناک حالت میں ہیں اور کسی بھی وقت گر سکتی ہیں، غیرملکی خبر رساں ایجنسی

ہتھوڑے کی زور دار آواز ایک وسیع ویران کمپاؤنڈ میں گونج رہی ہے، جہاں ملبے کے ڈھیر پھیلے ہوئے ہیں اور مزدور احتیاط سے کراچی کے ایک نظر انداز شدہ علاقے میں پانچ منزلہ منہدم عمارت کے باقی ڈھانچے کو مسمار کر رہے ہیں۔

ترکیہ کی سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو کی رپورٹ کے مطابق کچھ دن قبل تک، لیاری ٹاؤن کی ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک پر واقع یہ عمارت کئی خاندانوں کا گھر تھی اور علاقے کی روزمرہ زندگی میں مرکزی کردار ادا کرتی تھی۔

دہائیوں کی لاپروائی اور ساختی کمزوری کے باعث یہ عمارت رواں ماہ کے اوائل میں اچانک گر گئی، جس کے نتیجے میں 27 افراد جان کی بازی ہار گئے اور کئی زخمی ہوئے، جبکہ درجنوں لوگ بے گھر ہو گئے، زیادہ تر متاثرین ہندو برادری سے تعلق رکھتے تھے۔

راشد علی، جو عمارت کی چھت سے گرنے کے باوجود معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے تھے لیکن ان کی دائیں ٹانگ ٹوٹ گئی تھی، نے انادولو ایجنسی کو بتایا،’ ایسا لگا جیسے میرے سر پر بم پھٹا ہو، مجھے بس اتنا یاد ہے کہ لوگوں نے مجھے ملبے سے نکالا، اور ہر طرف چیخ و پکار تھی۔’

ایک اور رہائشی، چمن میشوری نے بتایا کہ عمارت گرنے سے پہلے کچھ وقفوں سے دو جھٹکے محسوس ہوئے، جن کی وجہ سے کچھ رہائشی بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

انہوں نے انادولو کو بتایا، ’ میں اپنی دکان پر تھا جب میرے بیٹے نے فون کرکے بتایا کہ عمارت کو جھٹکے لگے ہیں، میں نے اپنے گھر والوں کو فوراً باہر نکلنے کا کہا۔’

ان کی بروقت کارروائی سے ان کے پانچ بچوں کی جان بچ گئی، مگر ان کے چار دیگر عزیز بروقت نہ نکل سکے اور جاں بحق ہو گئے۔

ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا کہ یہ عمارت، جو دراصل تین منزلہ تھی، 2022 میں سرکاری طور پر غیر محفوظ قرار دی جا چکی تھی، لیکن خالی کرنے کی بجائے، عمارت کے مالک نے مبینہ طور پر مقامی حکام سے ملی بھگت کر کے غیر قانونی طور پر دو مزید منزلیں تعمیر کروا دیں، جس سے پہلے سے کمزور بنیاد مزید بوجھ برداشت نہ کر سکی۔

عمارت کے رہائشیوں، بشمول راشد علی اور چمن میشوری کا کہنا ہے کہ انہیں عمارت خالی کرنے کے حکم کے بارے میں کبھی آگاہ نہیں کیا گیا۔

’ٹک ٹک کرتے بم ’

لیاری میں سیکڑوں مخدوش عمارتیں موجود ہیں جو رہائش کے لیے غیر محفوظ سمجھی جاتی ہیں، اس کے علاوہ، لیاری میں برطانوی دور کی 1500 سے زائد عمارتیں بھی ہیں، جن میں سے کئی کو محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی بھر میں تقریباً 600 عمارتوں کو غیر محفوظ قرار دیا گیا ہے، جن میں کم از کم 50 عمارتیں انتہائی خطرناک حالت میں ہیں اور کسی بھی وقت گر سکتی ہیں۔

سینئر شہری منصوبہ ساز عارف حسن نے انادولو کو بتایا،’ یہ عمارتیں ایسے ہی ہیں جیسے کسی بھی دن دھماکے سے پھٹنے والے بم ہوں۔’

انہوں نے شہر کو آفات کے لیے حساس بنانے کی وجہ کرپشن، تعمیراتی قوانین کی خلاف ورزیوں اور بلڈنگ اتھارٹیز کی ناکافی نگرانی کو قرار دیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ’ ایک شدید جھٹکا بڑے پیمانے پر تباہی لا سکتا ہے، کراچی میں بہت سی عمارتیں ناقص ڈیزائن اور ناقص تعمیر کی وجہ سے خطرناک ہیں۔’

عارف حسن کے مطابق، کئی پرانے تعمیراتی ڈھانچے نئی عمارتوں کی نسبت بہتر حالت میں ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانی عمارتوں میں زیادہ تر یا تو غیر قانونی طور پر قابضین رہ رہے ہیں یا پھر کرایہ دار ہیں جو 1947 کی تقسیم کے وقت مقرر کردہ انتہائی کم کرایہ (150-250 روپے) ادا کر رہے ہیں، اس لیے مالکان یا کرایہ دار مرمت کو ترجیح نہیں دیتے، جو کراچی کی قدیم عمارتوں کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

بڑھتا ہوا رہائشی بحران

کراچی میں عمارتوں کا گرنا کوئی انوکھی بات نہیں۔

مارچ 2020 میں گلستان جوہر میں ایک اور بوسیدہ عمارت گر گئی تھی، اس حادثے میں کم از کم 27 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

تاہم خطرہ صرف پرانی عمارتوں تک محدود نہیں، کیونکہ ناقص نگرانی کی وجہ سے نئی تعمیرات بھی گرنے کے خدشے سے دوچار ہیں۔

عارف حسن کے مطابق، کراچی میں رہائش کا بڑھتا ہوا بحران لوگوں کو غیر قانونی تعمیراتی ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے، جس سے مسئلہ مزید گھمبیر ہو رہا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ’ شہر کو نچلے اور درمیانے آمدنی والے طبقے کے لیے سستی رہائش فراہم کرنے کی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے، یہی اس مسئلے کا واحد حل ہے، ورنہ لوگ غیر پیشہ ور ٹھیکیداروں کا شکار بنتے رہیں گے اور ایسے سانحات ہوتے رہیں گے۔’

اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے چیئرمین حسن بخشی نے خطرناک عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کرنے میں مدد کی پیشکش کی۔

حسن بخشی نے کہا،’ یہ عمارتیں صرف رہائشیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ آس پاس کی عمارتوں کے لیے بھی خطرہ ہیں، ان کو فوری طور پر گرا کر زلزلہ مزاحم اور دیگر اہم رہنما اصولوں کے مطابق دوبارہ تعمیر کرنا چاہیے۔’

انہوں نے نشاندہی کی کہ زیادہ تر رہائشیوں کے پاس دوبارہ تعمیر کے وسائل موجود نہیں ہیں اور حکومت کی مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ ڈویلپرز، انجینئرز، ٹاؤن پلانرز اور حکام پر مشتمل ایک آزاد اتھارٹی قائم کی جائے تاکہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جا سکے۔

صوبائی حکومت نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کو ہدایت دی ہے کہ انتہائی خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کو فوری طور پر خالی اور مسمار کیا جائے، ایس بی سی اے کے ترجمان نے تصدیق کی کہ تقریباً 50 خطرناک عمارتوں کے رہائشیوں کو انخلا کے نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ’ انخلا آسان نہیں کیونکہ رہائشی مزاحمت کرتے ہیں، وہ متبادل رہائش کا مطالبہ کرتے ہیں، جو ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتا۔’

ترجمان نے تسلیم کیا کہ لیاری کی منہدم عمارت پر اضافی منزلیں تعمیر کرنے کی اجازت دے کر حکام نے قوانین کی خلاف ورزی کی، اس حادثے کے بعد ایس بی سی اے کے 8 افسران اور عمارت کے مالک کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے حال ہی میں تسلیم کیا کہ صوبائی حکومت تمام بوسیدہ عمارتوں میں رہنے والے لوگوں کو رہائش فراہم نہیں کر سکتی۔

انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ’ حکومت کے پاس جو زمین ہے، وہ ہم ان لوگوں کو دیں گے جن کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں، انہوں نے مزید کہا تھا کہ حکومت پر ایسا کرنے کے لیے کوئی قانونی ذمہ داری نہیں ہے۔