پاکستان

چینی بحران کی اصل جڑ سیاسی اثر و رسوخ اور شوگر مافیا کا گٹھ جوڑ ہے، ماہرین

ماہرین کے مطابق چینی صرف معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک ساختی ناکامی ہے جس پر اشرافیہ نے قبضہ جما رکھا ہے اور زیادہ تر شوگر ملز سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں۔

اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں بار بار پیدا ہونے والے چینی بحران کی بنیادی وجہ سیاسی اثر و رسوخ، شوگر مافیا کا گٹھ جوڑ اور ناقص پالیسی سازی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک سیمینار میں ماہرین نے ملک میں جاری چینی بحران کی اصل وجوہات سیاسی اثر و رسوخ، شوگر مافیا (کارٹیلائزیشن)، اشرافیہ کلچر، پرانی زرعی تکنیکیں اور مناسب پالیسی فریم ورک کی عدم موجودگی کو قرار دیا۔

پائیدار ترقیاتی پالیسی ادارہ (ایس ڈی پی آئی) نے سیمینار بعنوان ’پاکستان میں چینی بحران: وجوہات، اثرات اور حل‘ منعقد کیا، جس میں چینی بحران کی ساختی، اقتصادی اور سیاسی وجوہات پر غور کیا گیا۔

ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ساجد امین جاوید نے زور دیا کہ چینی سیکٹر میں اصلاحات تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیے بغیر ممکن نہیں، جن میں کسان، مشروبات اور مٹھائیاں بنانے والی کمپنیاں، صنعت اور صارفین شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ چینی پالیسی مل مالکان کو تحفظ فراہم کرتی ہے، ہمیں بھارت کے ’کنٹرولڈ ڈی ریگولیشن ماڈل‘ اور فلپائن کے ’مرحلہ وار ڈی ریگولیشن نظام‘ سے سیکھنے کی ضرورت ہے، جہاں سبسڈی کا بوجھ بتدریج ختم کر کے اس کا اثر کسانوں اور صارفین تک منتقل کیا گیا۔

ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق چینی سیکٹر کو سیاسی تحفظ حاصل ہے کیونکہ زیادہ تر شوگر ملز سیاست دانوں کی ملکیت ہیں جو حکومتی سطح پر پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں، ڈی ریگولیشن کا آغاز صنعت کی سطح سے ہونا چاہیے تاکہ کارٹیلائزیشن کو ختم کیا جا سکے، ساتھ ہی کمزور طبقات، خصوصاً کسانوں اور صارفین کو تحفظ بھی دیا جائے۔

ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر کاشف سالک نے کہا کہ چینی بحران کو محض موسمی قلت نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک مسلسل نظامی ناکامی ہے، جس کا سبب سابقہ حکومتوں کی ناقص پالیسیاں رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شوگر مافیا ایک بڑا مسئلہ ہے، اسی لیے حکومت آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے تحت سبسڈی ختم کر کے شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنے پر غور کر رہی ہے۔

سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کے شوگر کین ماہر پروفیسر ڈاکٹر محمد اسمٰعیل کمبھار نے سندھ میں گنے کی پیداوار پر افسوسناک صورتحال بیان کی۔

انہوں نے کہا کہ قدیم کاشتکاری طریقے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گنے کی ریکوری شرح میں کمی اور سیاسی طور پر مضبوط مل مالکان کی اجارہ داری نے کسانوں کو تاخیر سے ادائیگی اور استحصال کا شکار بنایا ہے۔

ڈاکٹر کمبھار نے بتایا کہ سندھ کی 40 سے زائد ملوں میں صرف 25 سے 30 فعال ہیں، اور پانی کی قلت کی وجہ سے کسان مالی اور ماحولیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔

انہوں نے فوری پالیسی اصلاحات، قومی شوگر پالیسی میں نظرثانی، کسانوں کو 15 دن کے اندر ادائیگی اور ملکی ضرورت پوری ہونے تک چینی برآمدات پر پابندی کی سفارش کی۔

ڈاکٹر اسمٰعیل کمبھار کا کہنا تھا کہ گنا ایک ’ڈیلٹا کراپ‘ ہے جو غیر متناسب پانی استعمال کرتا ہے اور زرعی ماحولیاتی نظام کی پائیداری کے لیے خطرہ ہے، جو پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ چینی صرف معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک ساختی ناکامی ہے جس پر اشرافیہ نے قبضہ جما رکھا ہے اور زیادہ تر شوگر ملز سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر اسمٰعیل کمبھار نے بتایا کہ سندھ میں 15-2014 سے کسانوں کی 36 ارب روپے کی ادائیگیاں واجب الادا ہیں۔

یونیورسٹی آف فیصل آباد کے ڈائریکٹر ایگریکلچر پالیسی پروفیسر محمد آصف کامران نے چینی اسٹاک اور پیداوار میں ناقص ڈیٹا مینجمنٹ اور ڈیجیٹل شفافیت کے فقدان پر تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں چینی اسٹاک کو مانیٹر کرنے اور درآمد/برآمد سے متعلق فیصلوں کی رہنمائی کے لیے ایک مرکزی ڈیجیٹل ڈیش بورڈ کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر آصف کامران نے پانی کی کم کھپت والی فصل ’شوگر بیٹ‘ کی طرف منتقل ہونے کی تجویز دی اور گُڑ جیسے متبادل کی طرف صارفین کی عالمی تبدیلیوں کی مثالیں پیش کیں۔

انہوں نے چینی کی پیداوار اور تقسیم میں شفافیت اور ڈیجیٹل ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے بلاک چین ٹیکنالوجی کے استعمال کی تجویز بھی دی تاکہ جعلسازی اور غیر مؤثریت کو روکا جا سکے۔

ڈاکٹر آصف کامران نے مزید کہا کہ پاکستان میں فی کس چینی کا استعمال خطرناک حد تک زیادہ ہے، حالانکہ حالیہ دنوں میں قیمت 200 روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

پنجاب کے ایڈیشنل کین کمشنر سبطِ حسن شیرازی نے کہا کہ ہماری لیبارٹریز رپورٹ شدہ اور اصل چینی پیداوار کے درمیان فرق چیک کر رہی ہیں، اور اکثر 1.5 فیصد کا فرق پایا جاتا ہے۔