علما کا سوات میں تشدد سے مدرسے کے طالبعلم کی موت کے ذمے داران کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ
علمائے کرام نے سوات کے مدرسے میں اساتذہ کے مبینہ وحشیانہ تشدد سے طالبعلم کی موت کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ملزمان کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے، علما نےاپیل کی کہ اس افسوسناک واقعے کو تمام مدارس کی بدنامی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ضلعی دفتر سوات میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاق المدارس العربیہ خیبرپختونخوا کے صوبائی سربراہ مولانا حسین احمد نےچلیار، خوازہ خیلہ میں مدرسے کے اندر نوجوان طالب علم فرحان پر وحشیانہ تشدد اور قتل کی شدید مذمت کی، انہوں نے مرحوم طالبعلم فرحان کے خاندان سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔
مولانا حسین احمد نے کہا کہ یہ واقعہ نہ صرف متاثرہ خاندان بلکہ پوری قوم اور علمائے کرام کے لیے انتہائی المناک اور تکلیف دہ ہے۔
اس موقع پر وفاق المدارس ملاکنڈ ڈویژن کے مولانا قاری محب اللہ، مولانا قاری محمد طاہر، جے یو آئی سوات کے امیر مولانا سید قمر، جنرل سیکریٹری اعجاز خان، وحدت المدارس کے مولانا سمیع الحق، جماعت اسلامی کے اختر علی خانجی، تنظیم المدارس کے نور محمد کفایت اللہ، رابطۃ المدارس کے سید محمد فاروقی، اشاعت التوحید والسنہ کے مولانا عصمت اللہ، جے یو آئی سوات کے ترجمان مفتی صادق محمد اور دیگر علما بھی موجود تھے۔
علمائے کرام نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندان اور مقامی برادری کو یقین دلایا کہ اس دکھ کی گھڑی میں دینی قیادت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
مولانا حسین احمد نے کہا کہ وفاق المدارس کے مرکزی رہنما مفتی تقی عثمانی نے بھی متاثرہ خاندان سے تعزیت کی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس افسوسناک واقعے میں ملوث افراد کو سخت اور عبرتناک سزا دے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا سدباب ہو سکے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ اس طرح کے افسوسناک واقعات دیگر تعلیمی اداروں میں بھی پیش آتے رہتے ہیں اور ان کی ہمیشہ مذمت ہونی چاہیے، تاہم انہوں نے زور دیا کہ چند افراد کی حرکتوں کی بنیاد پر پورے دینی تعلیمی نظام کو بدنام نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا حسین احمد نے کہا کہ’ بدقسمتی سے اس واقعے کے بعد دینی مدارس کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا مہم شروع کر دی گئی ہے، جس میں ان کے عشروں پر محیط اجتماعی کردار کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔’
انہوں نے یاد دلایا کہ دینی مدارس نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ملک کی بے شمار مساجد انہی مدارس سے تربیت یافتہ علما چلا رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ’ ان اداروں کو بدنام یا کمزور کرنے کی کسی بھی سازش کو ناکام بنا دیا جائے گا۔’
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ اس افسوسناک واقعے کو تمام مدارس کی بدنامی کا ذریعہ نہ بنایا جائے، کیونکہ اس سے دینی تعلیم کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ خیبرپختونخوا کے مدارس میں اساتذہ کی تربیت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ’ مدارس میں اندرونی نگرانی اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام پہلے سے موجود ہے اور اس کی کڑی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔’
مولانا حسین احمد نے حکومت اور مقامی انتظامیہ کو خبردار کیا کہ کسی ایک واقعے کی بنیاد پر مدارس کے خلاف انتقامی کارروائی نہ کی جائے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ غیر رجسٹرڈ این جی اوز دینی مدارس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر رہی ہیں اور ان کا ایجنڈا کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
انہوں نے میڈیا سے بھی اپیل کی کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور ایسے ویڈیوز یا مواد کے نشر کرنے سے گریز کرے جو دینی اداروں کی بدنامی کا سبب بنے، اور صحافیوں کو یاد دلایا کہ وہ بھی اسی معاشرے اور دین کا حصہ ہیں۔