دنیا

حماس غزہ میں جنگ بندی معاہدہ نہیں چاہتی، ٹرمپ

' میرا خیال ہے کہ وہ زندہ نہیں رہنا چاہتے' امریکی صدر ، حماس نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مذاکرات پر اپنےموقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس غزہ میں جنگ بندی معاہدہ نہیں کرنا چاہتی، حماس نے الزام عائد کیا ہے کہ واشنگٹن مذاکرات پر اپنےمؤقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کا یہ بیان اسرائیل اور امریکا کے فلسطینی مزاحمتی گروپ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات ختم کردینے کے بعد سامنے آیا ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ’ یہ افسوس کی بات ہے، حماس واقعی کوئی معاہدہ نہیں چاہتی، میرا خیال ہے کہ وہ زندہ نہیں رہنا چاہتے۔’

خیال رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے بالواسطہ مذاکرات دو ہفتے سے زائد عرصے کے بعد تعطل کا شکار ہو گئے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ ان کی حکومت دوحہ سے اپنے مذاکرات کار واپس بلانے کے باوجود اب بھی معاہدے کی کوشش کر رہی ہے۔

ٹرمپ نے حماس کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ’ اب ہم آخری یرغمالیوں (کی رہائی) تک پہنچ چکے ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ آخری یرغمالیوں کے بعد کیا ہوتا ہے۔’

امریکی صدر نے فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو بھی رد کر دیا۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’ وہ ( میکرون) بہت اچھے آدمی ہیں، میں انہیں پسند کرتا ہوں، لیکن ان کا یہ بیان کوئی وزن نہیں رکھتا۔’

دوسری جانب، حماس نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مذاکرات پر اپنےمؤقف سے پیچھے ہٹ گیا۔

العریبیہ نے اے ایف پی کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ حماس کے ایک عہدیدار نے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف پر الزام لگایا کہ وہ واشنگٹن کے مؤقف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور حقیقت کو مسخ کر رہے ہیں۔

یہ بیان اس وقت آیا جب اسٹیو وٹکوف نے غزہ جنگ بندی مذاکرات سے امریکا کے انخلاء کا اعلان کیا اور حماس پر معاہدہ روکنے کا الزام لگایا۔

حماس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم نے اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ’ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے منفی بیانات حالیہ مذاکرات کے سیاق و سباق کے بالکل خلاف ہیں، اور وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں، لیکن یہ بیانات اسرائیلی موقف کو فائدہ دینے کے لیے دیے گئے ہیں۔’

جمعرات کو امریکا نے اسرائیل کے ساتھ مل کر مذاکرات کاروں کو واپس بلا لیا تھا، اسٹیو وٹکوف نے اس ناکامی کا الزام حماس پر لگاتے ہوئے کہا تھا کہ واشنگٹن اب ’ متبادل آپشنز پر غور کرے گا۔’

قطر میں ثالث اسرائیلی اور حماس وفود کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے ذریعے جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہے تھے، جو جنگ کو دو سال ہونے کے قریب ہے۔

جمعرات کو اسٹیو وٹکوف نے دوحہ میں قطری، امریکی اور مصری ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کو تسلیم کیا تھا اور امریکی ٹیم کو مشاورت کے لیے واپس بلانے کا اعلان کیا تھا، ساتھ ہی حماس کی نیک نیتی پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

باسم نعیم نے وٹکوف پر موقف بدلنے کا الزام لگایا اور کہا کہ امریکی ایلچی نے چند دن پہلے ہی ان مذاکرات کو ’ مثبت’ قرار دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ’ ثالثوں نے حماس کے جواب کو بہت مثبت قرار دیا تھا، چونکہ یہ ثالثوں کی طرف سے دونوں فریقوں کو دی گئی تجویز کے بہت قریب تھا۔’

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ بات چیت میں اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلا کی تفصیلات پر بات چیت ہو رہی تھی۔

باسم نعیم نے کہا کہ ’ ایک اصولی معاہدہ’ بھی ہو گیا تھا، جس میں ’ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں لیے گئے یرغمالیوں اور اسرائیل میں قید فلسطینی قیدیوں کے تبادلے’ کے فارمولے پر اتفاق ہوا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل کا جنگ بندی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اسٹیو وٹکوف پر زور دیا کہ وہ صہیونی ریاست پر ’ دباؤ ڈالیں’۔