اسلام آباد: ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس میں باضابطہ چالان پراسیکیوشن برانچ میں جمع
اسلام آباد پولیس نے ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے قتل کیس میں چالان باضابطہ طور پر ضلعی و سیشن عدالتوں کی پراسیکیوشن برانچ میں جمع کرا دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تحقیقات میں پولیس نے 22 سالہ عمر حیات کو اس بہیمانہ قتل کا مرکزی ملزم نامزد کیا ہے۔
ملزم پر کلیدی گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر الزام عائد کیا گیا ہے، جن میں ثنا یوسف کی والدہ اور خالہ کے بیانات شامل ہیں، نیز ملزم کا دفعہ 164 کے تحت قلمبند کیا گیا اعترافی بیان بھی شامل ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ بیان اور دیگر شواہد استغاثہ کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
معروف سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کو 2 جون کو اسلام آباد کے سیکٹر جی-13 میں ان کی رہائش گاہ پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق، ملزم کو واقعے کے 20 گھنٹے کے اندر فیصل آباد سے گرفتار کر لیا گیا تھا، گرفتاری کے دوران پولیس نے اس کے قبضے سے قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور مقتولہ کا موبائل فون برآمد کیا تھا۔
تحقیقات کے مطابق ملزم نے فون اس نیت سے لیا تاکہ ڈیجیٹل شواہد کو تلف کیا جا سکے۔
انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) نے ڈی آئی جی محمد جواد طارق اور سینئر افسران کے ہمراہ ریسکیو 15 پر پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ سنگدل قاتل قتل کے بعد فون اپنے ساتھ لے گیا تاکہ شواہد کو ختم کیا جا سکے۔
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے 3 شہروں میں 11 سے زائد مقامات پر چھاپے مارے گئے، محدود سراغ ہونے کے باعث ملزم کی شناخت بڑا چیلنج تھا، تاہم جیو فینسنگ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے اس کے فرار کے راستے کا سراغ لگایا گیا، جی-13 سے چونگی نمبر 26 تک، جہاں سے اس نے ایک مسافر گاڑی کے ذریعے فیصل آباد کا رخ کیا۔
تحقیقات سے واقف ذرائع کے مطابق ملزم جو ایک ریٹائرڈ گریڈ 16 کے افسر کا بیٹا ہے، مقتولہ کو تقریباً ایک سال سے جانتا تھا۔
ملزم نے پہلے بھی 28 اور 29 مئی کے درمیان ثنا کی سالگرہ پر ملنے کی کوشش کی تھی مگر ملاقات نہیں ہو سکی تھی، ایک مختصر فون کال میں، جس میں اس نے نظراندازی کی شکایت کی، دونوں نے 2 جون کو دوبارہ ملنے پر اتفاق کیا، تاہم جب وہ اس کے گھر پہنچا اور اس نے باہر آنے سے انکار کر دیا تو ملزم کسی طرح گھر کے اندر داخل ہو گیا، وہاں دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس کے دوران ملزم نے اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔
قتل کے وقت ثنا کی خالہ گھر پر موجود تھیں، جب کہ اس کے والدین غیر حاضر تھے۔
پولیس نے زور دیا کہ ثنا کا قتل اسلام آباد اور پورے ملک میں شدید صدمے کا باعث بنا، یہ ایک سفاکانہ جرم تھا اور پولیس کے لیے ایک کڑا امتحان بھی۔
چالان جمع ہونے کے بعد ثنا یوسف کے مبینہ قاتل کے خلاف مقدمے کی سماعت باضابطہ طور پر شروع ہونے کی توقع ہے اور پولیس کو یقین ہے کہ جمع کیے گئے شواہد مجرم کو سزا دلوانے کے لیے کافی ہوں گے۔