پنجاب میں کپاس کی پیداوار کے اعداد و شمار پر تنازع شدت اختیار کر گیا
پنجاب میں کپاس کی پیداوار کے سرکاری اور نجی اعداد و شمار میں نمایاں فرق سامنے آنے کے بعد متعلقہ اداروں کے طریقۂ کار پر سوالات اٹھنے لگے ہیں، جس سے صنعت سے جڑے حلقے تشویش میں مبتلا ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق پنجاب میں فصلوں کی پیداوار سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے ادارے کروپ رپورٹنگ سینٹر (سی آر سی) کی جانب سے کپاس کی پیداوار کے تعین کے طریقہ کار پر شدید تنازعہ پیدا ہو گیا ہے، جس میں اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور گمراہ کن معلومات فراہم کرنے کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔
انکشاف ہوا ہے کہ سی آر سی پنجاب مبینہ طور پر مفروضوں پر مبنی اندازے لگا رہا ہے، یعنی ایک ایکڑ میں پودے پر موجود گولوں کی تعداد یا کچھ اضلاع میں صرف 8 فٹ بائی 6 فٹ کے چھوٹے پلاٹس کی بنیاد پر کپاس کی مجموعی پیداوار کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔
یہ عمل اس طویل عرصے سے جاری تضاد کو اجاگر کرتا ہے جو سی آر سی پنجاب اور پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے درمیان پایا جاتا ہے، کیونکہ سی آر سی ہمیشہ انتہائی زیادہ پیداوار ظاہر کرتا رہا ہے۔
کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق نے کہا کہ یہ فرق طویل عرصے سے کپاس کی صنعت سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز کے لیے فیصلہ سازی کو مشکل بناتا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ بعض لوگ سی آر سی کے بڑھا چڑھا کر دیے گئے اعداد کو کچھ جنرز کی ناقابلِ اندراج روئی کی فروخت سے جوڑتے ہیں، لیکن دو متضاد قومی ڈیٹا سیٹس کی موجودگی نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 15 جولائی تک پی سی جی اے کے مطابق پنجاب کی کپاس کی پیداوار 1 لاکھ 45 ہزار گانٹھیں تھی، جب کہ سی آر سی پنجاب نے 3 لاکھ 35 ہزار گانٹھوں کا دعویٰ کیا، جو کہ ایک چونکا دینے والا فرق ہے۔
احسان الحق نے مزید کہا کہ چند گولوں یا چھوٹے پلاٹس کی بنیاد پر صوبائی پیداوار کا تعین قطعی طور پر غلط ہے۔
انہوں نے سی آر سی سے مطالبہ کیا کہ وہ پی سی جی اے کی طرز پر زمینی حقیقت پر مبنی ڈیٹا اکٹھا کرنے کا طریقہ اپنائے، جو ہر جننگ فیکٹری سے ہر پندرہ روز بعد کپاس اور روئی کی فروخت اور ذخیرہ شدہ مقدار کا ڈیٹا حاصل کرتا ہے۔
احسان الحق نے تجویز دی کہ سی آر سی کا عملہ جننگ فیکٹریوں اور اجناس کی منڈیوں سے براہ راست اور بروقت ڈیٹا اکٹھا کرے تاکہ درست اور قابلِ اعتبار معلومات فراہم کی جا سکیں۔
اس کے جواب میں سی آر سی پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عبد القیوم نے ادارے کے طریقہ کار کا دفاع کیا۔
انہوں نے ڈان سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً 1 ہزار 600 افراد پر مشتمل عملہ کپاس اگانے والے علاقوں میں ہر ہفتے 4 ہزار مقامات سے ڈیٹا جمع کرتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ہماری ٹیمیں گولے کا سائز اور وزن ناپتی ہیں، ہر پودے پر گولوں کی تعداد گنتی ہیں اور کھیتوں میں چنائی کی سرگرمی کی نگرانی کرتی ہیں۔
ڈاکٹر قیوم نے دعویٰ کیا کہ سی آر سی کے تخمینے معیاری فیلڈ پریکٹس پر مبنی ہوتے ہیں اور اعداد و شمار کو کم یا زیادہ کرنے کا کوئی ذاتی فائدہ یا محرک موجود نہیں ہوتا۔
انہوں نے پی سی جی اے کے ڈیٹا سے فرق کو ڈیٹا اکٹھا کرنے کے مختلف مراحل کی بنیاد پر قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چنائی کے مرحلے سے ڈیٹا رپورٹ کرتے ہیں، جب کہ پی سی جی اے جننگ کے مرحلے سے ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے، جہاں جنرز کی جانب سے سیلز ٹیکس سے بچنے کے لیے انڈر انوائسنگ ایک تسلیم شدہ مسئلہ ہے، جسے خود صنعت بھی تسلیم کرتی ہے۔
تاہم، ان وضاحتوں کے باوجود، سی آر سی اور پی سی جی اے کے اعداد و شمار میں بڑھتا ہوا فرق کپاس سے وابستہ حلقوں میں تشویش کا باعث بن رہا ہے، جو خبردار کر رہے ہیں کہ غیر معتبر پیداوار کے اعداد و شمار نہ صرف مؤثر پالیسی سازی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ مارکیٹ کا اعتماد بھی متزلزل کر سکتے ہیں۔