اسلام آباد: قائد اعظم یونیورسٹی کے ہاسٹل سے گرفتار طلبہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے قائد اعظم یونیورسٹی کے ہاسٹل سے گرفتار طلبہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ مرید عباس نے کیس پر سماعت کی، طالب علموں کے وکیل ریاست علی آزاد کی جانب سے ایف آئی آر کا متن پڑھا گیا۔
اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے ریاست علی آزاد کا کہنا تھا کہ 29 طالب علم اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں، میں ٹینکلی چیزوں میں نہیں پڑتا، جو دفعات لگائی گئیں ان میں سے بس ایک دفعہ ناقابل ضمانت ہے۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ایف آئی آر میں اسلحے کا ذکر نہیں، نعرے بازی کا ذکر ہے، میرا کیس ریمانڈ نہ دینے کا نہیں بلکہ ڈسچارج کرنے کا ہے۔
ریاست علی آزاد نے کہا کہ یہ کیس 324 یا 382 کا نہیں بنتا۔
ریاست علی آزاد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نعیم گجر نے اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ کیا یونیورسٹی پر بھی کوئی قانون لاگو ہوتا ہے؟ پہلے ایڈمیشن دیا گیا کمرے الاٹ کیے گئے، کرائے دار کو بھی نکالنے کیلئے نوٹس دینا ہوتا ہے۔
نعیم گجر کا کہنا تھا کہ ان بچوں میں کل کے وکیل، جج، سیاستدان موجود ہیں، یہ قانون کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے، اس تفتیشی کو 21 توپوں کی سلامی دینی چاہیے جس نے 382 لگائی۔
وکلاء صفائی نے مؤقف اپنایا کہ اس ایف آئی آر میں مزید دفعات لگائی گئیں، اس ایف آئی آر کے متن میں نہیں لکھا ہوا کہ طلبہ نے کوئی چیز چھینی، اس ایف آئی آر میں کسی کا نام نہیں ہے جو زخمی ہوا ہو۔
ہادی علی چٹھہ کا کہنا تھا کہ کیا ملک میں مارشل لاء لگا ہوا ہے؟ ایک ریٹائرڈ کرنل اٹھ کر مستقبل پر پرچہ کاٹ دیتا ہے، ہم کل تھانے کے باہر کھڑے رہے، ہمیں وکلا سے ملنے نہیں دیا گیا، پولیس افسر نے کہا بلوچ طلبہ غیر قانونی ہیں۔
ہادی علی چٹھہ نے مزید کہا کہ کیا یہ ریاست کا چہرہ ہے طالب علموں پر ڈکیتی کا پرچہ، ساری دنیا میں وکلاء احتجاج کرتے ہیں۔
اس موقع پر انسانی حقوق کی خاتون وکیل ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ پولیس والوں نے عدالت کا احترام نہیں کیا اور ملزمان کو عدالت کے باہر سے واپس لے گئے، پولیس والوں نے وکلاء پر گاڑی چڑھانے کی کوشش کی۔
یونیورسٹی وکیل راجا ظہور الحسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ طلبہ نہیں آوٹ سائیڈر ہیں، یونیورسٹی میں ان لوگوں کی وجہ سے منشیات چلتی ہے۔
راجا ظہور الحسن کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ان طالب علموں کی درخواست خارج کر چکی ہے، ان گرفتار طلبہ میں کوئی بھی اب یونیورسٹی کا طالب ہے تو ہم استدعا کریں گے اسے ڈسچارج کر دیں۔
یونیورسٹی کے وکیل راجا ظہور الحسن کے دلائل کے دوران طلبہ نے شیم شیم کے نعرے لگا دیے، عدالت نے نعرے بازی پر اظہار برہمی کیا۔
پراسیکوشن کی جانب سے ملزمان کے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر جسمانی ریمانڈ پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
بعد ازاں، عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے ہدایت دی کہ ملزمان کو دوبارہ 13 اگست کو 14 دن کا ریمانڈ مکمل ہونے پر پیش کیا جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد پولیس نے کہا تھا کہ قائداعظم یونیورسٹی کے ہاسٹلز خالی کرانے کے دوران کچھ طلبہ کو ہاسٹلز سے ’منتقل‘ کیا گیا، جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔
29 جولائی کی صبح سے سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز زیرِ گردش تھیں، جن میں اسلام آباد پولیس کے اہلکار قائداعظم یونیورسٹی کے ہاسٹلز کے باہر موجود تھے، جبکہ کچھ ویڈیوز میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے طلبہ کو گرفتار یا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔
پولیس کے مطابق ’طلبہ 11 ہاسٹل خالی کرچکے تھے جب کہ باقی 4 ہاسٹلز کے حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ان ہاسٹلز میں کچھ طلبہ یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر بھی خالی نہیں کررہے اور غیر قانونی طور پر مقیم ہیں‘۔
کپیٹل پولیس نے مزید بتایا تھا کہ ’قائد اعظم یونیورسٹی انتظامیہ کی تحریری درخواست پر یونیورسٹی انتظامیہ اور سیکیورٹی گارڈز کی مدد کی گئی تھی، جن طلبہ نے اس پُر امن عمل میں مزاحمت کی، ان کو ہاسٹل سے منتقل کیا گیا تھا۔