پاکستان

پی او آر کارڈ کے حامل افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے سے 10 لاکھ افراد پریشان

ایس آر او جاری ہونے کے بعد پی او آر کارڈز والے افغان باشندوں کا قیام غیر قانونی قرار، خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور، لنڈی کوتل میں عبوری مراکز قائم کر دیے، یو این ایچ سی آر کا اظہار تشویش۔

وفاقی حکومت کی جانب سے بغیر ویزے کے رہائش پذیر آخری درجہ بندی میں شامل پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ رکھنے افغان باشندوں کو ملک سے نکالنے کے فیصلے نے 10 لاکھ سے زائد افراد کو شدید اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کے روز وزارت داخلہ نے ایک خصوصی ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ پی او آر کارڈز کی مدت 30 جون کو ختم ہو چکی ہے، اور اس کے حامل افغان شہریوں کی ملک میں موجودگی اب غیر قانونی ہے۔

اس حکم کے تحت ضلعی انتظامیہ، پولیس، استغاثہ، جیل خانہ جات اور دیگر متعلقہ اداروں کو ان افراد کی گرفتاری، حراست (چاہے جیلوں میں یا دیگر مناسب مقامات پر) اور ملک بدری کے لیے اقدامات کا اختیار دے دیا گیا۔

ایس آر او میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت اطلاع دیتی ہے کہ وہ فوری طور پر فارنرز ایکٹ 1946 کی دفعہ 3 کی ذیلی شق (1)، (2)(c)، (2)(e)(i) اور (2)(g) کے تحت پی او آر کارڈ ہولڈرز کے حوالے سے اختیارات استعمال کر رہی ہے۔

اس ایس آر او کے بعد، خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور نے جمعہ کو ایک عوامی اعلان میں پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان باشندوں کی ملک بدری کا اعلان کیا، جو ہفتے کے روز اخبارات میں بھی شائع ہوا۔

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کہتا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ پناہ گزینوں کے تحفظ اور ان کی قانونی حیثیت سے متعلق سنگین خدشات کو جنم دیتا ہے۔

اعلان میں کہا گیا کہ چونکہ پی او آر کارڈز کی مدت 30 جون کو ختم ہو چکی ہے، اس لیے ان کے حاملین کی پاکستان میں موجودگی غیر قانونی ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ حکومت پہلے ہی غیر دستاویزی افغانوں اور افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والوں کی ملک بدری کا عمل شروع کر چکی ہے۔

اعلان میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام افغان باشندے جو پاکستانی ویزے اور درست پاسپورٹ کے بغیر مقیم ہیں، ان کا قیام غیر قانونی ہے، لہٰذا وہ اپنے وطن واپس چلے جائیں۔

محکمہ داخلہ نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے پشاور اور خیبر کے ضلع لنڈی کوتل میں افغانوں کی واپسی کے لیے عبوری مراکز قائم کیے ہیں۔

اگرچہ پی او آر کارڈز کی مدت 30 جون کو ختم ہو چکی، لیکن ان کے حاملین کو امید تھی کہ حکومت ہمیشہ کی طرح اس بار بھی مدت میں توسیع کرے گی۔

وزارت سیفران نے جون اور جولائی میں کم از کم 3 نوٹیفیکیشن جاری کیے جن میں پولیس اور دیگر اداروں کو ہدایت دی گئی کہ پی او آر کارڈ رکھنے والوں کو گرفتار نہ کیا جائے، ان کے بینک اکاؤنٹس اور فون سمز بلاک نہ کی جائیں، جس سے ان میں قیام میں توسیع کی امید مزید بڑھ گئی تھی۔

متحدہ افغان تاجر اتحاد کے چیئرمین سید نقیب بادشاہ نے ’ڈان‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانوں کو نکالنے کا یہ اچانک فیصلہ غیر دانشمندانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف چند ہفتے قبل سیفران وزارت نے دیگر سرکاری اداروں کو بتایا تھا کہ پی او آر ہولڈرز کے قیام میں توسیع کا معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیجا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ظلم ہے کہ ان لوگوں کو، جو دہائیوں سے یہاں مقیم ہیں، اچانک ملک چھوڑنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ افغان پناہ گزین سیاست کا شکار ہو گئے ہیں یا کچھ اور ہوا ہے۔

چیئرمین نے کہا کہ پشاور میں تقریباً 40 ہزار افغان تاجر ہیں، جنہوں نے پاکستان میں 10 لاکھ روپے سے لے کر ایک ارب روپے تک کی سرمایہ کاری کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت ایک دن اچانک جاگتی ہے، اور ان لوگوں (جن میں سے 559 افراد نے ایک ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے) کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا کہتی ہے۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

نقیب بادشاہ نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اگلے ہفتے اسلام آباد کا دورہ کریں گے تاکہ پاکستانی حکام، آئی او ایم، یو این ایچ سی آر اور افغان مہاجرین کے رہنماؤں سے ملاقات کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ یکطرفہ ہے اور ہم نے بارہا پاکستانی حکام سے اسے دوبارہ غور کرنے کی اپیل کی ہے۔

ایک افغان چمڑے کے ملبوسات بنانے والے ڈیزائنر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’ڈان‘ کو بتایا کہ اس نوٹیفیکیشن نے پاکستانی افغانوں میں خوف اور گھبراہٹ پھیلا دی ہے، ہر افغان خوفزدہ ہے اور ہمارے پاس اب کوئی ایسا فورم نہیں بچا جہاں ہم اپیل کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم پناہ گزین نہیں، بلکہ تاجر ہیں، میرے ساتھ کم از کم 22 ورکرز کام کر رہے ہیں، اور پناہ گزینوں کو بوجھ کہنے کی باتیں سراسر غلط ہیں۔

یو این ایچ سی آر پاکستان کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے پاکستان میں رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی جبری واپسی کے حوالے سے سنگین تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے وزارت داخلہ کی طرف سے 31 جولائی کو جاری کیا گیا حالیہ نوٹیفیکیشن دیکھا، جو غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کے تیسرے مرحلے کے آغاز سے متعلق ہے، اور ہم متعلقہ حکام سے اس کے اثرات کی وضاحت کے لیے رابطے میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایس آر او، جس کے تحت پی او آر کارڈ ہولڈرز کی موجودگی غیر قانونی قرار دی گئی ہے، ان کے تحفظ اور قانونی حیثیت کے حوالے سے سنگین خدشات پیدا کرتا ہے، اور اس سے ان کی آمدنی اور تعلیم میں شدید خلل پیدا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ افراد کی پناہ گزین حیثیت برقرار ہے، اور جبری واپسی عدم واپسی کے اصول کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے، جس کے تحت ممالک ان افراد کو واپس نہیں بھیج سکتے جہاں ان کی جان یا آزادی کو خطرہ ہو۔

قیصر آفریدی نے مزید کہا کہ یو این ایچ سی آر تمام پناہ گزینوں کے تحفظ کی وکالت کرتا ہے اور واپسی کا عمل رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار ہونا چاہیے، جیسا کہ بین الاقوامی اصولوں میں درج ہے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق، 30 جون 2025 تک پاکستان میں 13 لاکھ سے زائد افغان موجود تھے، ان میں سے 7 لاکھ 17 945 خیبرپختونخوا میں، 3 لاکھ 26 ہزار 584 بلوچستان میں، ایک لاکھ 95 ہزار 188 پنجاب میں، 75 ہزار 510 سندھ میں اور 43 ہزار 154 اسلام آباد میں مقیم تھے۔

2004-05 میں افغانوں کی قومی مردم شماری کے بعد، پاکستانی حکومت نے یو این ایچ سی آر کے تعاون سے افغان پناہ گزینوں کو پی او آر کارڈز جاری کیے تھے، جب کہ 2016 میں فارنرز ایکٹ 1946 میں ترمیم کے ذریعے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) متعارف کرایا گیا۔

نومبر 2023 سے جب پاکستانی حکام نے غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کا منصوبہ نافذ کرنا شروع کیا، تو غیر دستاویزی افغان اور اے سی سی کارڈ ہولڈرز ملک چھوڑ چکے ہیں، جب کہ پی او آر کارڈ رکھنے والے واحد گروہ تھے، جو قانونی طور پر پاکستان میں موجود تھے۔

آئی او ایم کی افغان باشندوں کی دو ہفتہ وار مانیٹرنگ رپورٹ (1-15 جولائی 2025) کے مطابق، ستمبر 2023 سے اب تک کل 11 لاکھ 40 ہزار افراد افغانستان واپس جا چکے ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ 2 لاکھ 62 ہزار 443 افراد نومبر 2023 میں واپس گئے، جب کہ ایک لاکھ 48 ہزار 121 افراد اپریل 2025 میں حکومت کی اے سی سی کارڈ ہولڈرز کی ملک بدری مہم کے بعد وطن واپس لوٹے۔

رپورٹ کے مطابق، رپورٹنگ کے دوران (1 تا 15 جولائی 2025)، واپسی کی سب سے بڑی وجہ گرفتاری کا خوف (93 فیصد) تھا، جب کہ 29 فیصد نے بتایا کہ ان کے کسی عزیز کی ملک بدری کی وجہ سے وہ بھی واپس گئے۔