پاکستان

کوہستان میں 28 سال قبل لاپتا شخص کی لاش برفانی گلیشیئر سے مل گئی

مقامی افراد نے پگھلتے گلیشیئر سے انسانی جسم ملنے کی اطلاع دی، لاش حیرت انگیز طور پر محفوظ ہے، کپڑے بھی نہیں پھٹے، پولیس کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ

خیبرپختونخواہ کے ضلع کوہستان میں 28 سال قبل لاپتا ہونے والے شخص نصیر الدین کی لاش برفانی گلیشیئر سے مل گئی۔

ڈان نیوز کے مطابق کوہستان میں برفانی گلیشیئر سے 28 سال سے لاپتا شخص نصیرالدین کی لاش ملنے کی اطلاع ملی ہے، لاش حیرت انگیز طور پر محفوظ ہے، کپڑے بھی نہیں پھٹے، لاپتا شخص کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ہم 28 سال سے تلاش میں تھے۔

مقامی افراد نے پگھلتےگلیشیئر سے انسانی جسم ملنے کی اطلاع دی، لاش حیرت انگیر طور پر محفوظ ہے، جسم سلامت ہے اور کپڑے بھی موجود ہیں۔

اہل خانہ کے مطابق 28 سال سے گمشدہ شخص کی تلاش جاری تھی، پولیس نے شناخت اور مزید حقائق کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ماہرین کے مطابق گلیشیئر نے متوفی کے جسم کو قدرتی طور پر محفوظ رکھا ہے، اسی لیے وہ گلنے اور سڑنے سے محفوظ رہا ہوگا۔

یاد رہے کہ جولائی 2023 میں سوئٹزرلینڈ کے مشہور میٹرہارن پہاڑ کے قریب گلیشیئر پگھلنے سے 1986 میں لاپتا ہونے والے کوہ پیما کی باقیات ملنے کا انکشاف ہوا تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ لاپتا ہونے والے کوہ پیما کی باقیات ملنے کا انکشاف سوئٹزرلینڈ کے علاقے زرمٹ میں موجود تھیوڈول گلیشیئر کو عبور کرنے والے کوہ پیماؤں نے کیا تھا۔

انہوں نے دیکھا کہ ایک ہائیکنگ بوٹ اور کرمپون برف سے نکل رہے تھے، تاہم کوہستان میں ملنے والی لاش مکمل محفوظ حالت میں ملی ہے۔

نصیر الدین کیسے لاپتا ہوئے؟

بی بی سی اردو نیوز سروس کی رپورٹ کے مطابق 3 اگست 2025 کو جب کثیر الدین اپنے بھائی نصیر الدین کی لاش لینے کے لیے لیدی ویلی روانہ ہوئے تو اس دوران انہوں نے بتایا کہ وہ اور نصیر الدین الائی سے کوہستان کی سپیٹ ویلی آئے تھے، جہاں سے انہوں نے تجارت کے لیے گھوڑے خریدے تھے اور ان گھوڑوں کو واپس الائی پہنچانا تھا۔

دونوں بھائی کوہستال سے مال مویشی اور گھوڑے لا کر الائی میں فروخت کرتے تھے، جہاں ان کی ’بہت طلب ہوتی تھی‘۔

الائی سے کوہستان کا راستہ دشوار گزار تھا، جو سال میں کئی ماہ تک بند بھی رہتا تھا، کثیر الدین کے بقول وہ خاندانی دشمنی کے باعث غیر رویتی راستوں پر سفر کرتے تھے۔

یہ جون 1997 کی بات ہے جب وہ اور ان کا بھائی نصیر الدین کوہستان کی سپیٹ ویلی کا سفر کر رہے تھے اور واپسی کے لیے انہوں نے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ سپیٹ ویلی سے ناران کاغان پہنچے وہاں رات گزارنے کے بعد الائی کے لیے واپسی کا سفر شروع کیا، جب ہم کوہستان کی حدود میں پہنچے تو ہم نے کسی سے راستے پوچھا جس نے ہمیں لیدی ویلی کے پہاڑوں تک پہنچنے کا راستہ بتایا، ہم گھوڑوں پر سفر کر رہے تھے۔

کثیر الدین کہتے ہیں کہ لیدی ویلی پر دوپہر کے سفر کے دوران نصیر الدین گھوڑے پر سوار تھے اور وہ پیدل چل رہے تھے، ’جب ہم بالکل اوپر پہنچ گئے تو اچانک فائرنگ کی آواز سنی‘۔

کثیر الدین کے بقول خدشہ تھا کہ ’فائرنگ دشمن کی جانب سے‘ کی گئی، مگر اس معاملے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی اور نہ ہی کوہستان پولیس کو وہاں فائرنگ کی اطلاع موصول ہوئی۔

مگر کثیر الدین کا اصرار ہے کہ ’فائرنگ کے بعد نصیر الدین ایک غار میں چلے گئے، میں واپس مڑا اور اس مقام پر پہنچا جہاں پر میں نے دیکھا کہ بھائی غار کے اندر گیا تھا تو وہاں کچھ نہیں تھا، میں نے تھوڑا سا برف کے غار کے اندر جا کر بھی دیکھا مگر کچھ بھی نہیں تھا۔‘

کثیر الدین کے بقول انہوں نے کافی عرصے تک دیگر لوگوں کی مدد سے بھی وہاں اپنے بھائی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے، لہٰذا انہوں نے خاندان کے مشورے پر ’گلیشیئر پر ہی نصیر الدین کی نماز جنازہ ادا کر دی تھی۔‘