دنیا

اسرائیل کی غزہ پر بمباری میں تیزی، یمنی حوثیوں کا بن گوریون ایئرپورٹ پر میزائل حملہ

صہیونی فورسز کی بے مثال شدت کیساتھ زمینی کارروائی فضائیہ اور توپ خانے سے غزہ کے مختلف علاقوں میں جاری ہے، لاغرپن کی وجہ سے فلسطینی امداد تک رسائی سے محروم

اسرائیل نے غزہ پر مہلک زمینی اور فضائی حملے مزید تیز کر دیے ہیں۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق صہیونی فورسز کی زمینی کارروائی فضائیہ اور توپ خانے سے بہت بھاری فائرنگ کے ساتھ غزہ کے مختلف علاقوں میں جاری ہے اور یہ ایک ’بے مثال شدت‘ ظاہر کرتی ہے۔

اسرائیل روزانہ صرف 86 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے رہا ہے، جو کہ غزہ کے حکومتی میڈیا آفس کے مطابق روزانہ درکار کم از کم 600 ٹرکوں کا صرف 14 فیصد ہے، جو آبادی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درکار ہے۔

حماس کے سینئر رہنما اسامہ حمدان نے کہا ہے کہ اسرائیل کی ’منصوبہ بند بھوک‘ اور غزہ میں نسل کشی ’انسانیت کے خلاف جرم‘ ہے، موجودہ صورت حال کا خاتمہ کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری فوری مداخلت کرے۔

اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے نتیجے میں اب تک کم از کم 60 ہزار 933 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 50 ہزار 27 زخمی ہو چکے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کے حملوں کے دوران تقریباً ایک ہزار 139 افراد اسرائیل میں ہلاک ہوئے تھے اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔

یمنی حوثیوں کا بن گوریون ایئرپورٹ پر میزائل حملہ

یمن میں انصار اللہ سے وابستہ حوثیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے مرکزی ایئرپورٹ پر ہائپر سونک میزائل داغا ہے۔

یمن کے حوثی باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کے بن گوریون ایئرپورٹ پر ایک ہائپر سونک بیلسٹک میزائل داغا گیا، جسے انہوں نے غزہ کے فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا عمل قرار دیا ہے۔

حوثی فوج کے ترجمان یحییٰ سریع نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ اس حملے میں ’فلسطین 2‘ نامی میزائل استعمال کیا گیا۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ میزائل کو رات کے وقت فضائیہ نے راستے میں ہی تباہ کر دیا تھا۔

’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ یمن سے داغا گیا ایک میزائل اسرائیلی فضائیہ نے روک لیا تھا۔

یہ حملہ غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد حوثیوں کی جانب سے کیے گئے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل حملوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔

لاغر ہونے کی وجہ سے فلسطینی امداد تک رسائی سے محروم

ایک فلاحی تنظیم کا کہنا ہے کہ بہت سے فلسطینی اس قدر کمزور (لاغر پن میں مبتلا) ہوچکے ہیں کہ وہ امدادی مقامات تک پیدل نہیں جاسکتے۔

ڈینش ریفیوجی کونسل (ڈی آر سی) کا کہنا ہے کہ غزہ میں 70 فیصد فلسطینی ’بھوک سے پیدا ہونے والی شدید کمزوری‘ کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے ان کے لیے امداد تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔

ڈی آر سی نے کہا جسمانی تھکن اتنی شدید ہے کہ بہت سے لوگ امدادی تقسیم کے مقامات تک پیدل طویل سفر کرنے یا مدد ملنے کے باوجود بھاری سامان اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔

یہ بیان ڈی آر سی کی جانب سے جاری کردہ ایک سروے کی بنیاد پر دیا گیا جو دیر البلح، خان یونس، غزہ سٹی اور شمالی غزہ میں مقیم فلسطینیوں کے انٹرویوز پر مشتمل تھا۔

ڈی آر سی نے 22 مئی سے 27 جولائی کے درمیان 39 افراد سے انٹرویو کیے، جن میں سے 46 فیصد نے بتایا کہ انہیں موجودہ مقام پر ہفتے میں صرف 2 بار صاف پینے کا پانی میسر آتا ہے۔

28 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ کمیونٹی کچن سے ہفتے میں صرف ایک بار گرم کھانا حاصل کر پاتے ہیں، جبکہ 31 فیصد نے کہا کہ انہیں انٹرویو سے پہلے کے ایک ماہ میں کوئی خدمات نہیں ملیں۔

انٹرویو دینے والوں نے بتایا کہ انہوں نے لوگوں کو (جن میں ان کے اہل خانہ بھی شامل تھے) امداد حاصل کرنے کی کوشش کے دوران جان بوجھ کر نشانہ بناتے، گولیاں مارتے اور قتل ہوتے دیکھا، جسے ڈی آر سی نے فوجی نگرانی میں چلنے والی امدادی تقسیم کی اسکیم قرار دیا۔

ڈی آر سی کے مطابق، اس تشدد کی وجہ سے لوگوں نے اس امداد کو ’خون میں لت پت‘ یا ’خون آلود امداد‘ قرار دیا ہے۔