مدارس سے متعلق قانون میں تبدیلیوں سے نئے مسائل پیدا ہونے کا امکان
اگرچہ حکومت نے مولانا فضل الرحمٰن اور مختلف دینی وفاقوں کو خوش رکھنے کے لیے جاری کردہ آرڈیننس کو پارلیمنٹ سے منظور کرا لیا ہے، تاہم اس قانون پر عمل درآمد میں رکاوٹ اس حقیقت سے پیدا ہو سکتی ہے کہ اس کا اطلاق صرف وفاقی دارالحکومت تک محدود ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق بدھ کو قومی اسمبلی نے سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) ایکٹ 2025 منظور کر لیا، جس کے تحت دینی مدارس کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی رجسٹریشن کے لیے یا تو وفاقی وزارت تعلیم کے تحت قائم ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ریلیجس ایجوکیشن (ڈی جی آر ای) سے رجوع کریں یا پھر 1860 کے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت اپنے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے رجسٹر ہوں۔
یہ نئی ترمیم قانون کے سیکشن ’21 سی‘ میں شامل کی گئی ہے جس کی منظوری پہلے ہی سینیٹ سے حاصل کی جا چکی ہے۔
یہ قانون اس وقت تنازع کا باعث بنا جب صدر آصف علی زرداری نے مبینہ طور پر گزشتہ سال اس پر دستخط کرنے سے گریز کیا۔
20 اکتوبر 2024 کو سینیٹ اور اگلے دن قومی اسمبلی نے بل کی منظوری دی تھی، اس وقت حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کے بدلے اس بل کی منظوری پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
تاہم مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ہم خیال، جن میں شیعہ، بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث اور جماعت اسلامی سے وابستہ دینی وفاقوں کے سربراہان شامل تھے، اس بات پر نالاں تھے کہ نئے قانون کے تحت انہیں دوبارہ رجسٹریشن کرانی پڑے گی۔
دوسری طرف مذہبی طبقے کا ایک گروہ، جس کی قیادت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین راغب نعیمی کر رہے ہیں، مدارس کی وزارت تعلیم کے تحت رجسٹریشن کی حمایت کرتا ہے۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ چونکہ مدارس تعلیم فراہم کرتے ہیں، اس لیے انہیں وزارتِ تعلیم کے تحت ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ فیصلہ علما کے درمیان ممکنہ اختلاف کو روکنے کا ذریعہ بنا، اور ہم نے ان کے انتخاب کا احترام کیا، حالانکہ ہمارے پاس مدارس کے 10 بورڈز کی اکثریت ہے اور 18 ہزار 600 میں سے اکثر مدارس انہی بورڈز کے ماتحت ہیں‘۔
تاہم قانونی خلا اس قانون کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے، کیونکہ سوسائٹیز ایکٹ 1860 وفاقی قانون ہے، جسے 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں میں منسوخ کر کے مقامی قوانین سے بدل دیا گیا ہے۔
جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے حکومت کے رویے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر کے مدارس کو غیر رجسٹرڈ قرار دینا درست نہیں، البتہ کئی مدارس کو بینک اکاؤنٹس بلاک ہونے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’صوبوں نے 2019 کے بعد سوسائٹیز ایکٹ کو منسوخ کر دیا تھا، اور اس سلسلے میں بلوچستان حکومت سے کئی نشستیں ہو چکی ہیں، وہ وفاقی حکومت کی منظوری کے انتظار میں ہے‘۔