پاکستان

پسند سے شادی کی، والد دھمکیاں دیتے ہیں، ڈیفنس کی رہائشی لڑکی کا سپریم کورٹ میں بیان

اب کچھ نہیں ہوگا، کوئی دھمکیاں نہیں دے گا، چیف جسٹس نے لڑکی کو شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دیتے ہوئے فیملی کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں ڈیفنس کی رہائشی لڑکی کے جبری مذہب تبدیل کروانے اور پسند کی شادی کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے لڑکی کو شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔

ڈان نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر اسلام قبول کرنے والی لڑکی عدالت میں پیش ہوگئی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا دباؤ کے تحت زبردستی آپ کا مذہب تبدیل کروایا گیا ہے؟ آپ نے اپنی پسند سے شادی کی ہے؟ شادی کے وقت عمر کیا تھی؟

دوران سماعت لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ اس نے اپنی پسند سے شادی کی اور اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں تھا، شادی کے وقت عمر 28 سال تھی، اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہوں، میرے والد دھمکیاں دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اب کچھ نہیں ہوگا، کوئی دھمکیاں نہیں دے گا، عدالت نے لڑکی کو شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دیتے ہوئے لڑکی اور اس کی فیملی کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

یاد رہے کہ 4 اگست کو لڑکی کے والد کے وکیل نے سپریم کورٹ میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ درخواست گزار کی 2 بیٹیاں 2021 میں لاپتا ہوگئی تھیں، بیٹیوں کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا، بیٹیوں کے لاپتا ہونے کے معاملے پر سندھ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ پولیس نے بیٹیوں کی گمشدگی کے مقدمے میں بھی ’سی کلاس‘ چالان جمع کروایا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق بچی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس نے ایک برس تک والد کو بچی سے رابطے اور شادی کا نہیں بتایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بچی کو عدالت میں بلا لیتے ہیں، اگر شادی جبری ہوئی تو کارروائی کریں گے۔