پاکستان

سندھ حکومت کا ’اقلیتی برادری کے صنعتی کارکنوں‘ کو ای بائیکس اسکیم میں شامل کرنے کا فیصلہ

پاکستان کے پرچم میں موجود سفید رنگ اقلیتوں اور ان کے مساوی حقوق کی نمائندگی کرتا ہے، ورکرز کی فلاح و بہود کیلئے مزید اقدامات کریں گے، سیکریٹری ڈبلیو ڈبلیو بی رفیق قریشی

سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ نے الیکٹرک موٹر سائیکل اسکیم میں خواتین کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے صنعتی کارکنوں کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ (ڈبلیو ڈبلیو بی) کی جانب سے اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے صنعتی کارکنوں کو بھی ’ای بائیکس‘ دینے کا فیصلہ اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر کیا گیا، یہ دن بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کو کی گئی تاریخی تقریر کی یاد میں منایا جاتا ہے، جس میں انہوں نے تمام شہریوں کو مذہب سے بالاتر ہو کر برابر کے حقوق دینے پر زور دیا تھا۔

سیکریٹری ڈبلیو ڈبلیو بی رفیق قریشی نے اس اقدام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئےکہا کہ پاکستان کے پرچم میں موجود سفید رنگ اقلیتوں اور ان کے مساوی حقوق کی نمائندگی کرتا ہے۔

سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے دیگر کئی اقدامات بھی کیے گئے، جس میں ورکرز کو حادثاتی ہیلتھ انشورنس اسکیم کے تحت اب سالانہ 7 لاکھ روپے کی طبی سہولت اور ملک بھر کے 270 اسپتالوں میں علاج کی سہولت دستیاب ہوگی۔

ڈبلیو ڈبلیو بی نے ایک بڑے ہاؤسنگ منصوبے کا بھی اعلان کیا، جس کے تحت مزدوروں کے فلیٹس کی جگہ مکمل طور پر سولر توانائی سے چلنے والے گھر دیے جائیں گے، بورڈ کے تحت چلنے والے اسکول بھی سولرائز کیے جائیں گے اور طلبا کو ہر سال مفت یونیفارم بھی فراہم کیے جائیں گے۔

سیکریٹری محنت نے بتایا نے بتایا کہ وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ کی ہدایت کے مطابق، ورکرز کے انتقال پر دی جانے والی گرانٹ 10 لاکھ روپے، جبکہ شادی کی امداد 3 لاکھ روپے سے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کر دی جائے گی، ساتھ ہی ویلفیئر بورڈ اپنے تمام آپریشنز کو ڈیجیٹائز کر رہا ہے تاکہ مزدوروں کو منصفانہ اور شفاف خدمات فراہم کی جا سکیں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی ایک چیلنج بنی ہوئی ہے، یورپی یونین کے سبیسٹین لوریئن کے مطابق، ہجوم کے حملے، جبری مذہب کی تبدیلی اور توہینِ مذہب کے واقعات بار بار پیش آتے ہیں۔

گزشتہ ماہ، وزیرِ مملکت برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی، کیسومل کھیل داس نے تسلیم کیا تھا کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کو انتظامی اور گورننس سے متعلق مسائل کا سامنا ہے، کھیل داس کے مطابق نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق کے قیام کے لیے قانون پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہو چکا ہے اور صدرِ مملکت کی منظوری کا منتظر ہے۔

یورپی یونین کے تعاون سے اقلیتی حقوق کے فروغ کے لیے ایک منصوبہ پنجاب اور سندھ میں پارلیمنٹرینز کمیشن برائے انسانی حقوق اور سینٹر فار سوشل جسٹس کے اشتراک سے نافذ کیا جا رہا ہے۔

جولائی 2025 میں غیر مسلم سینیٹرز کے ایک گروپ نے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کو خط لکھ کر ایوان میں ایک ’اقلیتی کاکس‘ بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ ان کے حقوق کی نمائندگی ممکن ہو سکے۔

گزشتہ سال، پاکستان مینارٹیز موومنٹ کے چیئرمین پیٹر چارلس سہوترا نے کہا تھا کہ پاکستان میں اقلیتی برادریاں عدم تحفظ اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں انہوں نے حکومت سے آئین میں فراہم کردہ ان کے حقوق کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔