غزہ کے معروف صحافی انس الشریف سمیت الجزیرہ کے 5 ارکان اسرائیلی حملے میں شہید
غزہ میں صحافیوں کے خیمے پر اسرائیل کے ٹارگٹڈ حملے میں معروف صحافی انس الشریف سمیت الجزیرہ کے 5 ارکان شہید ہوگئے۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یہ حملہ اتوار کی شب غزہ شہر کے الشفا ہسپتال کے مرکزی دروازے کے باہر موجود خیمے پر کیا گیا جس میں 7 افراد شہید ہوئے، جن میں انس الشریف کے علاوہ الجزیرہ کے نامہ نگار محمد قریقیہ اور کیمرہ آپریٹرز ابراہیم ظاہر، محمد نوفل اور مؤمن علیوہ شامل ہیں۔
الجزیرہ عربی کے 28 سالہ معروف نمائندے نے شہادت سے کچھ دیر قبل ایک ایکس پوسٹ مٰں لکھا کہ اسرائیل نے غزہ شہر کے مشرقی اور جنوبی حصوں پر شدید اور مسلسل بمباری، جسے ’فائر بیلٹس‘ کہا جاتا ہے، شروع کر دی ہے۔
ان کی جانب سے شیئر کردہ آخری ویڈیو میں اسرائیلی میزائلوں کی شدید گولہ باری کی گرج سنائی دیتی ہے جبکہ تاریک آسمان نارنجی روشنی سے روشن ہو رہا ہوتا ہے، انہوں نے لکھا کہ ’بلا تعطل بمباری جاری ہے، گزشتہ 2 گھنٹے سے غزہ شہر پر اسرائیلی جارحیت میں شدت آ گئی ہے‘۔
انس الشریف کی وصیت
انس الشریف کی شہادت کے بعد رواں سال 6 اپریل کو لکھی گئی ان کی وصیت پوسٹ کی گئی، انس الشریف نے کہا کہ ’یہ میری وصیت اور میرا آخری پیغام ہے، اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں تو جان لیں کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’اللہ جانتا ہے کہ میں نے اپنی پوری کوشش اور تمام قوت اپنے لوگوں کا سہارا اور آواز بننے کے لیے صَرف کی، میں نے جب سے جبالیہ پناہ گزین کیمپ کی گلیوں اور کوچوں میں آنکھ کھولی، میری امید تھی کہ اللہ میری زندگی کو طول دے تاکہ میں اپنے اہل خانہ اور عزیزوں کے ساتھ اپنے اصل قصبے مقبوضہ عسقلان لوٹ سکوں، لیکن اللہ کی مرضی مقدم ہے اور اس کا فیصلہ اٹل ہے‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’میں نے درد کو اس کی تمام جزئیات سمیت سہا، بارہا رنج اور نقصان کا ذائقہ چکھا، مگر کبھی بھی سچائی کو کسی بگاڑ یا توڑ مروڑ کے بغیر جوں کا توں بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، تاکہ اللہ ان لوگوں پر گواہ ہو جو خاموش رہے، جو ہماری ہلاکت پر راضی ہوئے، جنہوں نے ہماری سانسیں گھونٹ دیں اور جن کے دل ہمارے بچوں اور عورتوں کے مسخ شدہ لاشے دیکھ کر بھی نہ پگھلے اور جنہوں نے اس قتلِ عام کو نہ روکا جو ہمارے عوام ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے سے سہہ رہے ہیں‘۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’میں فلسطین کو تمہارے سپرد کرتا ہوں جو مسلم دنیا کا تاج ہے، دنیا کے ہر آزاد انسان کی دھڑکن ہے، میں اس کے عوام اور اس کے مظلوم و بے گناہ بچوں کو تمہارے سپرد کرتا ہوں جنہیں نہ خواب دیکھنے کا وقت ملا اور نہ ہی امن و سلامتی میں جینے کا، ان کے معصوم جسم اسرائیلی بموں اور میزائلوں کے ہزاروں ٹن وزن تلے کچلے گئے، ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دیواروں پر بکھر گئے‘۔
انس الشریف نے لکھا کہ ’میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ زنجیریں تمہیں خاموش نہ کر سکیں اور نہ ہی سرحدیں تمہیں روک سکیں، زمین اور اس کے عوام کی آزادی تک تم پُل بنو، یہاں تک کہ عزت اور آزادی کا سورج ہمارے چھنے ہوئے وطن پر طلوع ہو‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’میں تمہیں اپنا خاندان سپرد کرتا ہوں کہ تم ان کا خیال رکھو، اپنی پیاری بیٹی شام، جو میری آنکھوں کا نور ہے، تمہارے حوالے کرتا ہوں، جس کی پرورش میں ویسے نہ دیکھ سکا جیسے خواب دیکھے تھے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں تمہارے سپرد کرتا ہوں اپنے پیارے بیٹے صلاح کو جس کا سہارا بننے اور زندگی کے سفر میں اس کا ساتھ دینے کی میں نے خواہش کی تھی، یہاں تک کہ وہ اتنا مضبوط ہو جاتا کہ میرا بوجھ اٹھا سکے اور میرا مشن جاری رکھ سکے‘۔
انس نے لکھا کہ ’میں تمہارے سپرد کرتا ہوں اپنی پیاری ماں کو، جن کی بابرکت دعاؤں نے مجھے اس مقام تک پہنچایا، جن کی مناجات میرے لیے قلعہ ثابت ہوئیں اور جن کے نور نے میرے راستے کو روشن کیا، میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں قوت عطا کرے اور میری طرف سے بہترین بدلہ دے‘۔
انس الشریف نے اپنی وفادار اہلیہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں اپنی شریک زندگی اپنی پیاری بیوی اُم صلاح (بیان) کو تمہارے سپرد کرتا ہوں، جسے جنگ نے مجھ سے طویل دنوں اور مہینوں کے لیے جدا کر دیا، پھر بھی وہ ہمارے رشتے کی وفادار رہیں، زیتون کے درخت کے تنے کی مانند مضبوط، جو جھکتا نہیں، صابر، اللہ پر بھروسہ کرنے والی اور میری غیر موجودگی میں تمام ذمہ داری کو اپنی پوری قوت اور ایمان کے ساتھ اٹھانے والی‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’اگر میں مر جاؤں تو اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہتے ہوئے مروں گا، میں اللہ کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کے فیصلے پر راضی ہوں، اس سے ملاقات پر یقین رکھتا ہوں اور مطمئن ہوں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے‘۔
انہوں نے نصیحت کی کہ ’غزہ کو مت بھولنا اور مجھے بھی اپنی مخلص دعاؤں میں معافی اور قبولیت کے لیے یاد رکھنا‘۔
الجزیرہ کا ردعمل
الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک نے اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’صحافت کی آزادی پر ایک اور واضح اور سوچا سمجھا حملہ‘ قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ حملہ غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کے تباہ کن نتائج کے دوران ہوا ہے، جس میں شہریوں کا بے دریغ قتلِ عام، بھوک سے موت اور پوری کمیونٹیز کا صفایا شامل ہے، انس الشریف اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کا حکم غزہ پر قبضے اور تسلط کے منصوبے کو بے نقاب کرنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کی ایک مایوس کن کوشش ہے‘۔
الجزیرہ نے عالمی برادری اور تمام متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ ’اس جاری نسل کشی کو روکنے اور صحافیوں کے جان بوجھ کر نشانے پر لیے جانے کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’مجرموں کو استثنیٰ دینا اور جوابدہی کا فقدان اسرائیل کے اقدامات کو شہہ دیتا ہے اور سچ کے گواہوں کے خلاف مزید جبر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘۔
الجزیرہ انگلش کے نامہ نگار ہانی محمود، جو حملے کے وقت وہاں سے صرف ایک بلاک کے فاصلے پر تھے، نے کہا کہ انس الشریف کی موت پر رپورٹنگ کرنا پچھلے 22 ماہ کی جنگ کا سب سے مشکل لمحہ تھا۔
ہانی محمود نے کہا کہ صحافیوں کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کو درپیش بھوک، قحط اور غذائی قلت پر لگاتار رپورٹنگ کر رہے تھے، کیونکہ وہ اس جرم کی سچائی سب تک پہنچا رہے تھے۔
اسرائیل کا انس الشریف کو دانستہ قتل کرنے کا اعتراف
انس الشریف کے جان بوجھ کر قتل کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ وہ حماس کے ایک سیل کی قیادت کر رہے تھے اور اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں پر راکٹ حملوں کو آگے بڑھا رہے تھے۔
صہیونی فوج نے یہ بھی کہا کہ اس کے پاس ایسی دستاویزات موجود ہیں جو ان کی فلسطینی گروہ کے ساتھ وابستگی کا ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتی ہیں۔
یورو-میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کے تجزیہ کار محمد شہادہ نے کہا کہ اس بات کا ’صفر ثبوت‘ ہے کہ انس الشریف نے کسی بھی دشمنی میں حصہ لیا ہو، انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’صبح سے شام تک کیمرے کے سامنے کھڑے رہنا ان کا روز کا معمول تھا‘۔
گزشتہ ماہ، جب اسرائیلی فوج کے ترجمان اویخائے ادرعی نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو شیئر کر کے انس الشریف پر حماس کے عسکری ونگ کا رکن ہونے کا الزام لگایا تو اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے آزادی اظہار آئیرین خان نے کہا تھا کہ وہ ’اسرائیلی فوج کی جانب سے انس الشریف کے خلاف بار بار دھمکیوں اور الزامات سے گہری تشویش میں مبتلا ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’انس الشریف کی سلامتی کے خدشات درست ہیں کیونکہ اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد ہیں کہ غزہ میں صحافیوں کو اسرائیلی فوج نے اس بنیاد پر نشانہ بنا کر قتل کیا کہ وہ حماس کے دہشت گرد ہیں، حالانکہ اس کے کوئی ثبوت نہیں تھے‘۔
الجزیرہ نے حال ہی میں اسرائیلی فوج پر انس الشریف سمیت غزہ میں اپنے رپورٹرز کے خلاف اشتعال انگیز مہم چلانے کا الزام عائد کیا تھا۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اسے انس الشریف کی سلامتی پر گہری تشویش ہے کیونکہ انہیں اسرائیلی فوج انہیں بدنام کررہی ہے۔
اکتوبر 2023 میں غزہ پر حملے کے آغاز سے اسرائیل غزہ میں فلسطینی صحافیوں پر حماس کا رکن ہونے کا الزام لگاتا آیا ہے، جسے انسانی حقوق کے گروہ اسرائیلی مظالم کی رپورٹنگ کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
اسرائیلی فوج اب تک 200 سے زائد رپورٹرز اور میڈیا ورکرز کو قتل کر چکی ہے، جن میں کئی الجزیرہ کے صحافی اور ان کے رشتہ دار بھی شامل ہیں۔