دنیا

اسرائیل کے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے سے ایک اور تباہی کا خدشہ ہے، اقوام متحدہ

یہ منصوبے غزہ میں ایک اور تباہی کو جنم دیں گے، جو پورے خطے میں اثر انداز ہوگی اور مزید جبری نقل مکانی، ہلاکتوں اور تباہی کا باعث بنے گی، اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل کا سلامتی کونسل کو انتباہ

اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے سلامتی کونسل کو خبردار کیا کہ اسرائیل کے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے سے ’ایک اور تباہی‘ کا خدشہ ہے جس کے دور رس نتائج ہوں گے، جبکہ محصور علاقے میں قحط کے خطرے کے پیش نظر تل ابیب پر ملک کے اندر اور بیرونِ ملک تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی جانب سے غزہ پر قبضے کے اعلان کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک غیر معمولی ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا، غزہ پر قبضےکا منصوبہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی سیکیورٹی کابینہ نے منظور کیا تھا، جس کے بعد دنیا بھر سے سخت ردعمل سامنے آیا۔

اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل میروسلاو ینچا نے کہا کہ ’اگر یہ منصوبے نافذ کیے گئے تو غالب امکان ہے کہ یہ غزہ میں ایک اور تباہی کو جنم دیں گے، جو پورے خطے میں اثر انداز ہوگی اور مزید جبری نقل مکانی، ہلاکتوں اور تباہی کا باعث بنے گی‘۔

اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے اوچا کے مطابق اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے غذائی قلت کے باعث 98 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں سے 37 کی اموات جولائی سے اب تک ہوئیں، اوچا کے کوآرڈینیشن ڈائریکٹر رامیش راجاسنگھم نے کہا کہ ’یہ اب کوئی آنے والا غذائی بحران نہیں، بلکہ کھلا قحط ہے‘۔

اقوام متحدہ میں فلسطینی مندوب ریاض منصور نے کہا کہ ’20 لاکھ سے زائد متاثرین ناقابلِ برداشت اذیت سہہ رہے ہیں‘، انہوں نے اسرائیلی منصوبے کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے غیر ملکی صحافیوں کو غزہ جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔

اسرائیلی جارحیت میں اب تک کم از کم 61 ہزار 430 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ غزہ کے شہری دفاع کے ادارے کے مطابق اتوار کو اسرائیلی فائرنگ سے کم از کم 27 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 11 وہ لوگ شامل ہیں جو امدادی تقسیم کے مراکز کے قریب انتظار کر رہے تھے۔

پابندیوں کا مطالبہ

اسرائیل کے قریبی اتحادی لیکن اس بحران پر ہنگامی اجلاس بلانے کے حامی برطانیہ نے خبردار کیا کہ اسرائیلی منصوبہ تنازع کو مزید طویل کر سکتا ہے۔ برطانوی نائب مندوب جیمز کاریوکی نے کہا کہ ’یہ منصوبہ صرف فلسطینی عوام کی تکالیف میں اضافہ کرے گا، یہ حل کا راستہ نہیں بلکہ مزید خونریزی کا راستہ ہے‘۔

نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز کے باہر جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والے ایک چھوٹے مگر پرجوش مظاہرے کو پولیس کی بھاری نفری نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔

سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور ویٹو پاور کے حامل امریکا نے اتوار کے اجلاس کی حمایت کرنے والے ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ اسرائیل کے بارے میں جھوٹ پھیلا کر جنگ کو طول دے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ ڈوروتھی شی نے کہا کہ ’اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ طے کرے کہ اس کی سلامتی کے لیے کیا ضروری ہے اور حماس کے خطرے کو ختم کرنے کے لیے کون سے اقدامات مناسب ہیں‘۔

اسرائیل کے نائب مندوب جوناتھن ملر نے کہا کہ ’دباؤ اسرائیل پر نہیں بلکہ حماس پر ڈالنا چاہیے‘۔

الجزائر کے مندوب عمار بن جمعہ نے غزہ سٹی منصوبے کے جواب میں اسرائیل پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’انسانیت کے دشمن پر پابندیاں لگانے کا وقت آ گیا ہے‘، فلسطینی مندوب منصور نے کہا کہ ’اگر یہ کوئی اور ملک ہوتا تو آپ کب کے پابندیاں لگا چکے ہوتے‘۔

منقسم اسرائیل

اسرائیل کے اندر بھی گہری تقسیم پائی جاتی ہے، جہاں کچھ لوگ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ دوسرے حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے حامی ہیں۔

وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’یہ جنگ ختم کرنے کا سب سے بہتر اور تیز ترین راستہ ہے‘، انہوں نے کہا کہ وہ درست ٹائم فریم نہیں دینا چاہتے لیکن ہدف جنگ کو جلد ختم کرنا ہے۔

یہ پریس کانفرنس سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل ہوئی، اور اس سے ایک روز قبل ہزاروں افراد تل ابیب کی سڑکوں پر سیکیورٹی کابینہ کے فیصلے کے خلاف مظاہرے کر چکے تھے۔

مظاہرین میں شامل جوئیل اوبودوف نے کہا کہ ’یہ نیا منصوبہ بھی ایک ناکام منصوبہ ہے، جو ممکنہ طور پر ہمارے قیدیوں کے خاتمے اور مزید فوجیوں کی ہلاکت کا باعث بنے گا‘۔

اسرائیلی حکومت کو جنگ کے دوران مسلسل عوامی مظاہروں کا سامنا رہا ہے، جن میں اکثر سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے کے مطالبات شامل ہیں، کیونکہ ماضی میں جنگ بندی کے دوران قیدیوں کا تبادلہ فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔