پاکستان

وزارت صنعت کی چینی کے استعمال میں کمی کیلئے زیادہ ٹیکس لگانے کی سفارش

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں حکام نے نومبر میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کیے جانے کا خدشہ بھی ظاہر کردیا

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں وزارت صنعت کے حکام نے چینی کا استعمال کم کرنے کے لیے زیادہ ٹیکس لگانے کی سفارش کر دی، حکام نے نومبر میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کیے جانے کا خدشہ بھی ظاہر کر دیا۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کنوینئر محمد عاطف خان کی زیر صدارت ہوا، جس میں وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ وسط نومبر سے قبل مارکیٹ میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کی جا سکتی ہے۔

حکام کے مطابق اس وقت ملک میں 17 لاکھ ٹن چینی کا ذخیرہ موجود ہے، جو 15 نومبر تک کافی ہے، جبکہ ماہانہ کھپت 5 لاکھ 40 ہزار میٹرک ٹن ہے۔

حکام نے بتایا کہ ملک میں اس وقت 78 شوگر ملز فعال ہیں، کمیٹی نے شوگر ملز کے ڈائریکٹرز اور اکثریتی شیئر ہولڈرز کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ یہ معلومات میڈیا کو فراہم کی جائیں تاکہ عوام سیاسی پس منظر سے آگاہ ہو سکیں۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال 40 کروڑ 20 لاکھ ڈالر (تقریباً 112 ارب روپے) کی چینی ایکسپورٹ ہوئی، جس سے قبل پرچون قیمت 125 سے 130 روپے فی کلو تھی لیکن بعد میں یہ 200 روپے تک جا پہنچی۔

حکام نے کہا کہ برآمد سے قبل شوگر ملز سے 140 روپے فی کلو سے زیادہ نہ بیچنے کا معاہدہ ہوا تھا، تاہم قیمتیں بڑھ گئیں۔

وزارت صنعت کے حکام کے مطابق چینی کی پیداوار میں ایک ملین ٹن کمی ہوئی ہے اور رواں سال پیداوار کا تخمینہ 5.8 ملین میٹرک ٹن ہے، ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے چینی کی درآمد کی ضرورت نہ پڑے یا صرف 2 لاکھ ٹن درآمد کرنی پڑے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ 70 فیصد چینی انڈسٹری استعمال کرتی ہے، عام صارف نہیں، حکام نے قیمتوں میں استحکام کے لیے درآمد کی تجویز دی اور کہا کہ نومبر میں قیمتیں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

وزارت صنعت نے چینی کا استعمال کم کرنے کے لیے زیادہ ٹیکس لگانے کی سفارش کی، جبکہ ایف بی آر حکام نے بتایا کہ چینی پر 15 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے کا مقصد انڈسٹری کی حوصلہ شکنی تھا، لیکن اس کے بعد انڈسٹری نے مینوفیکچررز کی بجائے ہول سیلرز سے خریداری شروع کر دی۔