دنیا

دنیا بھر میں اسرائیلی حملے میں انس الشریف اور غزہ کے دیگر صحافیوں کی شہادت کی شدید مذمت

پاکستان سمیت دیگر ممالک، صحافتی اور انسانی حقوق کے اداروں کا اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ

اسرائیلی حملے میں غزہ میں معروف صحافی انس الشریف سمیت الجزیرہ کے پانچ ارکان کی شہادت کی دنیا بھر سے شدید مذمت کی گئی ہے۔

عالمی خبر رساں اداروں اے ایف پی، رائٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اکتوبر 2023 سے جاری جارحیت کے باعث غزہ میں انسانی بحران پر اسرائیل کو بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور ماہرین پہلے ہی اسرائیل کی کارروائیوں کو ’ نسل کشی’ قرار دے چکے ہیں، جسے تل ابیب مسترد کرتا ہے۔

غزہ کے حکام اور الجزیرہ کے مطابق 28 سالہ انس الشریف الجزیرہ کے ان پانچ ارکان میں شامل تھے جو غزہ سٹی کے مشرقی علاقے میں الشفا ہسپتال کے سامنے ایک خیمے پر کیے گئے ’ براہ راست حملے’ میں شہید ہوئے۔

ہسپتال کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس حملے میں دو دیگر افراد بھی شہید ہوئے، ایک چھٹے صحافی، مقامی فری لانس رپورٹر محمد الخالدی، بھی فضائی حملے میں شہید ہوئے۔

سوگواران بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے بیچ الشفا ہسپتال کے صحن میں جمع ہوئے تاکہ انس الشریف اور ان کے چار ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرسکیں۔

پاکستان

پاکستان نے کہا کہ یہ ’ سنگین حملہ بین الاقوامی انسانی اور انسانی حقوق کے قوانین کی ایک اور شدید خلاف ورزی ہے’ اور اس سے اسرائیل کے جرائم کی شدت اور سنگینی واضح ہوتی ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ’ پاکستانی حکومت عالمی برادری سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فوری اور فیصلہ کن اقدام کرے تاکہ اسرائیل کو استثنیٰ نہ ملے، شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور اسرائیل کو اس کے اقدامات پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔’

قطر

قطر کے وزیر اعظم نے صحافیوں کی شہادت پر اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان اموات کو ’ ناقابلِ تصور جرائم’ قرار دیا۔

وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے ایک پوسٹ میں کہا کہ’ غزہ پٹی میں اسرائیل کی جانب سے صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانا ظاہر کرتا ہے کہ یہ جرائم ناقابل تصور ہیں… اللہ صحافی انس الشریف، محمد قرقیعہ اور ان کے ساتھیوں پر رحم کرے۔’

#برطانیہ

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ترجمان کے مطابق وہ ’ غزہ میں صحافیوں کو بار بار نشانہ بنانے پر سخت تشویش’ میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ’ تنازعات کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت تحفظ کے مستحق ہیں اور انہیں خوف کے بغیر آزادانہ رپورٹنگ کرنے کا موقع ملنا چاہیے، اسرائیل کو یقینی بنانا چاہیے کہ صحافی محفوظ انداز میں اپنا کام کر سکیں۔’

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک صحافی کے حماس سے تعلق کے دعوے پر کیا کہیں گے، تو انہوں نے کہا کہ’ اس دعوے کی مکمل اور آزادانہ طور پر تفتیش کی جانی چاہیے، لیکن ہم بار بار صحافیوں کو نشانہ بنانے پر سخت تشویش میں ہیں۔’

اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے بھی ان شہادتوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی’ قرار دیا۔

یو این ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کے دفتر نے کہا کہ’ اسرائیل کو تمام شہریوں، بشمول صحافیوں کا احترام اور تحفظ کرنا چاہیے’ اور بتایا کہ اکتوبر 2023 سے غزہ میں کم از کم 242 فلسطینی صحافی شہید کیے جا چکے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ’ ہم تمام صحافیوں کے لیے غزہ تک فوری، محفوظ اور بلا رکاوٹ رسائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔’

ایران

ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسمٰعیل بقائی نے دنیا سے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا، انہوں نے کہا کہ’ پریس بیج نسل کشی کرنے والے ان جنگی مجرموں کے خلاف کوئی ڈھال نہیں ہے، جو دنیا کے اپنے مظالم کا گواہ بننے سے ڈرتے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ’ شدید مذمت تو کسی بھی مہذب انسان کا کم سے کم فرض ہے، لیکن دنیا کو فوراً اس ہولناک نسل کشی کو روکنے اور مجرموں کو جوابدہ بنانے کے لیے اقدام کرنا چاہیے، بے حسی اور بے عملی اسرائیل کے جرائم میں شراکت داری ہے۔’

رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز

اس تنظیم نے انس الشریف کے ’ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تسلیم شدہ شہادت’ کی مذمت کی، جہاں اسرائیل نے انس الشریف پر حماس سے تعلق رکھنے کا الزام لگایا، وہاں پریس آزادی کی اس مہم نے کہا کہ وہ ’ غزہ پٹی کے سب سے مشہور صحافیوں میں سے ایک اور غزہ کے عوام پر اسرائیل کے مسلط کردہ دکھ کے ترجمان’ تھے۔

آر ایس ایف نے کہا کہ وہ اس شہادت کی ’ سخت مذمت’ کرتے ہیں۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس

سی پی جے نے کہا کہ اسرائیل نے انس الشریف کے خلاف اپنے الزامات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

مڈل ایسٹ اور نارتھ افریقہ کی ڈائریکٹر سارہ قدح نے کہاکہ ’ اسرائیل کا صحافیوں کو عسکریت پسند قرار دینے کا رویہ، بغیر ٹھوس شواہد کے، اس کے ارادے اور پریس آزادی کے احترام پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ’ صحافی شہری ہیں اور انہیں کبھی نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے، ان شہادتوں کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔’

فریڈم آف دی پریس فاؤنڈیشن

اس ادارے نے بھی ان شہادتوں کی مذمت کی اور میڈیا پر مزید حملے روکنے کے لیے عالمی سطح پر کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ایڈووکیسی ڈائریکٹر سیٹھ اسٹرن نے کہا کہ’ جو لوگ غزہ میں بھوک اور تکلیف کی حالیہ ہولناک تصاویر پر مشتعل ہیں، انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ یہ تصاویر اور اپنی حکومتوں کی مالی مدد سے ہونے والے مظالم کی خبریں صحافیوں کی قربانی کے بغیر نہ دیکھ پاتے۔’

انہوں نے کہا کہ’ اسی لیے اسرائیل انہیں نشانہ بنا رہا ہے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہید کر رہا ہے، دنیا کو اس کام کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ سمجھ آ گئی ہے۔’

ایمنسٹی انٹرنیشنل

ایمنسٹی نے کہا کہ اسرائیلی فوج کے انس الشریف کے بارے میں دعوے ’ بالکل بے بنیاد اور بلا ثبوت ہیں’ اور یہ ایک ایسے طرزِ عمل کا حصہ ہیں جس میں صحافیوں، امدادی کارکنوں اور صحت کے عملے کو ’ دہشت گرد’ کہا جاتا ہے تاکہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔

ایمنسٹی نے فلسطینی صحافیوں کی شہادت کی آزاد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا، اور ’ ان کے خاندانوں کو انصاف اور مکمل ازالہ دینے’ کی اپیل کی اور کہا کہ ریاستوں کو ’ فوراً اسرائیل کو نسل کشی سے روکنے کے لیے اقدام کرنا چاہیے۔’