پاکستان

پشاور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نئے اپوزیشن لیڈرز کی تقرریاں روک دیں

عدالت عالیہ نے عمر ایوب اور شبلی فراز کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر بیرسٹر گوہر کے دلائل سن کر الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔

پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب اور شبلی فراز کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نئے اپوزیشن لیڈرز کی تقرریاں روک دیں، عدالت نے الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

ڈان نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں عمر ایوب اور شبلی فراز کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواستوں کی سماعت جسٹس ارشد علی اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال نے کی۔

بیرسٹر گوہر خان نے عدالت کو بتایا کہ 2 درخواستیں دائر کی ہیں، ایک عمر ایوب کی اور دوسری شبلی فراز کی ہے، عمر ایوب اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی اور شبلی فراز سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر تھے۔

بیرسٹر گوہر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے عمر ایوب اور چیئرمین سینیٹ نے شبلی فراز کو ڈی نوٹیفائی کرکے ان کی سیٹیں خالی قرار دی ہیں۔

بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ 5 اگست کو الیکشن کمیشن نے درخواست گزاروں کو نااہل کیا، 31 جولائی کو انسداد دہشت گردی عدالت نے درخواست گزاروں اور دیگر پی ٹی آئی اراکین کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کا عہدہ آئینی ہے، اسمبلی رول 39 کے تحت اپوزیشن لیڈر بنتا ہے، جب کوئی رکن قومی اسمبلی بنتا ہے تو پھر الیکشن کمیشن کا کام ختم ہو جاتا ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ الیکشن کمیشن کسی رکن کو نااہل قرار نہیں دے سکتا، 9 مئی افسوسناک واقعہ تھا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اس سے پہلے این اے ون چترال کے عبدالطیف کو بھی نااہل قرار دیا تھا، الیکشن کمیشن نے اظہر صدیق کیس کا غلط حوالہ دے کر ان کو نااہل قرار دیا۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے 180 سیٹیں جیتی، پارلیمنٹ میں 90 سیٹوں کے ساتھ گئے، اب 77 نشستیں رہ گئی ہیں، ہمیں عمر ایوب پر فخر ہے کہ اس کو 3 کروڑ لوگوں نے ووٹ دیا ہے، اب حکومت کسی دوسری پارٹی کا اپوزیشن لیڈر لانا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر نے ریفرنس نہیں بھیجا اور الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا، عدالت حکم دے کہ مزید کارروائی نہ کی جائے۔

جسٹس سید ارشد علی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کل تک ہم آپ کو حکم امتناع دیتے ہیں، عدالت نے سینیٹ میں نئے اپوزیشن لیڈر کی تقرری بھی روک دی۔

عدالت نے الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 اگست تک جواب طلب کرلیا۔