دنیا

ٹرمپ، روس کے ساتھ جنگ بندی معاہدے سے متعلق بات چیت میں یوکرین کی شمولیت چاہتے ہیں، میکرون

جرمن چانسلر فریڈرش میرس کی میزبانی میں ہونے والے ورچوئل سمٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یورپی یونین کے اہم رہنما شریک ہوں گے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روس کے ساتھ کسی بھی جنگ بندی معاہدے میں علاقے سے متعلق بات چیت میں یوکرین کو شامل ہونا ضروری ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ بیانات پہلی مرتبہ اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ ٹرمپ، یورپی رہنماؤں اور یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی بات چیت سے کیا حاصل ہوا ہے، اس بات چیت کا مقصد جمعہ کو الاسکا میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹرمپ کی ملاقات کے لیے لائحہ عمل طے کرنا تھا۔

اگر یوکرین کو شامل کرنے پر ٹرمپ کا اصرار درست ثابت ہوتا ہے تو یہ کیف اور اس کے اتحادیوں کے لیے کسی حد تک اطمینان کا باعث ہو سکتا ہے، جنہیں خدشہ تھا کہ ٹرمپ اور پیوٹن کوئی ایسا معاہدہ کر سکتے ہیں جو یورپ اور یوکرین کے سکیورٹی مفادات کو قربان کر دے اور یوکرین کی زمین کو تقسیم کرنے کی تجویز دے۔

ٹرمپ اور پیوٹن جمعہ کو الاسکا میں ملاقات کرنے والے ہیں تاکہ ڈھائی سال پرانی اس جنگ کو ختم کرنے پر بات چیت کی جا سکے، جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ کا سب سے بڑا تنازع ہے۔

ٹرمپ نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے لیے دونوں فریقوں کو زمین کا تبادلہ کرنا پڑے گا، یہ وہ جنگ ہے جس نے دسیوں ہزار جانیں لی ہیں اور لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا ہے۔

قبل ازیں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی جرمن چانسلر فریڈرش میرس کی میزبانی میں ہونے والے ورچوئل سمٹ میں شرکت کے لیے برلن پہنچ گئے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی رپورٹ کے مطابق یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی برلن میں یورپی یونین کے اہم رہنماؤں سے ملاقات کریں گے، جرمن چانسلر فریڈرش میرس کی میزبانی میں ہونے والے سمٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر یورپی رہنما بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوں گے۔

روانگی سے قبل یوکرینی صدر نے خبردار کیا کہ روس پر منصفانہ امن کے لیے دباؤ ڈالنا ضروری ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمیں یوکرین اور اپنے اتحادیوں کے تجربات سے سیکھنا چاہیے تاکہ روس کی طرف سے کسی بھی دھوکے سے بچا جا سکے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے 9 اگست کو سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر کہا تھا کہ یوکرینی اپنی زمین قابض کو نہیں دیں گے، انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف یوکرین کے بغیر کوئی بھی فیصلہ، امن کے خلاف فیصلہ ہے، اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، جنگ یوکرین کے بغیر ختم نہیں ہو سکتی۔

ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین ایسے حقیقی فیصلوں کے لیے تیار ہے، جو امن لا سکتے ہیں، لیکن انہوں نے زور دیا کہ یہ ایک ’باوقار امن‘ ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن رواں ہفتے الاسکا میں یوکرین میں امن کے لیے ہونے والے سربراہی اجلاس کی تیاری کر رہے ہیں۔

سی این این کے مطابق روسی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار نے اس خیال کو رد کر دیا کہ روس اور یوکرین، امن معاہدے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ علاقے کا تبادلہ کریں گے۔

وزارت کے محکمہ اطلاعات و پریس کے ڈپٹی ڈائریکٹر الیکسی فادیف نےکہا کہ روس کے وفاقی ڈھانچے کا ذکر ہمارے ملک کے آئین میں موجود ہے، بس اتنا ہی کافی ہے، لہٰذا الاسکا مذاکرات میں روسی وفد کے مقاصد صرف اور صرف قومی مفادات سے طے ہوتے ہیں، الیکسی فادیف کا اشارہ روس کی جانب سے دونیتسک، لوہانسک، خیرسون اور زاپوریژینا کے خطوں پر قبضے کی طرف تھا۔

گزشتہ ہفتے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ماسکو اور کیف کے درمیان جنگ ختم کرنے کے لیے کچھ علاقوں کا تبادلہ ہو سکتا ہے۔

جنگ کے آغاز میں بھی کریملن نے اس تجویز کو رد کر دیا تھا کہ یوکرین کے زیر قبضہ کورسک کے علاقے کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے، کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے فروری میں کہا تھا کہ یہ ناممکن ہے، روس نے کبھی اپنے علاقے کے تبادلے پر بات نہیں کی اور نہ کرے گا۔