پاکستان

کراچی : ڈیفنس میں طلاق یافتہ ماں نے دو بچوں کو ذبح کر ڈالا

ملزمہ کو حراست میں لے لیا گیا، 8 سالہ ضرار اور 4 سالہ سامعہ کے چاقو سے گلے کاٹے گئے، ملزمہ ادیبہ کی شوہر سے علیٰحدگی ہوگئی تھی اور عدالت نے بچے والد کے حوالے کردیے تھے، ڈی آئی جی ساؤتھ

کراچی کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں ایک 37 سالہ طلاق یافتہ خاتون نے مبینہ طور پر اپنے دو کمسن بچوں کو ذبح کر دیا۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل ( ڈی آئی جی) ساؤتھ سید اسد رضا کے مطابق،’ ادیبہ نامی خاتون نے اپنے 43 سالہ شوہر غفران خالد سے طلاق کے مسئلے پر اپنے دو بچوں، 8 سالہ ضرار اور 4 سالہ سامعہ کو تیز دھار چاقو سے قتل کر دیا۔’

سید اسد رضا نے مزید کہا کہ بچوں کی گردن کٹی ہوئی لاشیں خیابانِ مجاہد کی 10ویں اسٹریٹ پر واقع ایک گھر سے برآمد کی گئیں اور لاشوں کو قانونی کارروائی کے لیے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر منتقل کر دیا گیا۔

پولیس سرجن ڈاکٹر سمیہ سید نے کہا کہ بچوں کے گلے کٹے ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔

ڈاکٹر سمیہ نے مزید کہا کہ ’ جنسی تشدد کے کسی بھی امکان کے پیش نظر نمونے بھی لیے گئے ہیں۔ ’

ڈی آئی جی مسٹر رضا نے بتایا کہ پولیس نے خاتون کو گرفتار کر لیا ہے اور دہرے قتل کی واردات میں استعمال ہونے والا چاقو برآمد کر لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوڑے کی گزشتہ سال علیحدگی ہو گئی تھی، بچوں کی تحویل کا معاملہ متعلقہ عدالت میں لے جایا گیا تھا، جہاں سے والد کے حق میں فیصلہ ہوگیا تھا، تاہم، ماں کو اپنے بچوں سے ملنے کی اجازت تھی۔ بدھ کی رات، بچے اپنی والدہ کے ڈی ایچ اے میں واقع گھر میں ٹھہرے تھے جہاں اس نے مبینہ طور پر انہیں ذبح کر دیا۔

سید اسد رضا نے مزید بتایا کہ’ اس (ملزم ماں) نے بچوں کو قتل کرنے کے بعد اپنے سابق شوہر کو تصاویر بھی بھیجیں۔’ مزید کہا کہ مقتول بچوں کے والد غفران نے فوری طور پر مددگار-15 کو اطلاع دی تاہم، جب درخشاں پولیس رہائش گاہ پر پہنچی تو بدقسمتی سے، دونوں بچے قتل ہو چکے تھے۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ سابق شوہر نے پولیس کو بتایا کہ ملزم خاتون ’ ذہنی مسائل کا شکار’ تھی۔

سید اسد رضا کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ غفران اور ادیبہ کی 2012 میں کراچی میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے شادی کر لی۔

ادیبہ چار بہن بھائیوں میں سے ایک تھی جبکہ ان کے والدین علیحدہ ہو چکے تھے، اس کے والد بیرون ملک رہتے ہیں اور اس کی والدہ نے کسی اور شخص سے شادی کی تھی لیکن بعد میں علیحدگی ہو گئی تھی۔

ڈی آئی جی ساؤتھ نے مزید بتایا کہ ملزم خاتون نے کراچی میں ایک ادارے میں گریجویشن کے لیے داخلہ لیا تھا جو برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے منسلک تھا لیکن وہ اپنی گریجویشن مکمل نہیں کر سکی تھی۔ وہ کبھی کبھار کراچی میں چھوٹی موٹی نوکریاں کرتی تھی لیکن اس کی کوئی باقاعدہ ملازمت نہیں تھی۔

سید اسد رضا کا کہنا تھا کہ ملزمہ کے سابق شوہر غفران خالد، جو ڈی ایچ اے میں خیابانِ راحت پر رہتے ہیں، نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنی سابقہ اہلیہ کو مالی امداد فراہم کر رہے تھے۔

ڈی آئی جی ساؤتھ نے مزید کہا کہ ملزمہ نے تفتیش کاروں کو اپنے ابتدائی بیان میں بتایا ہے کہ وہ اپنا دفاع نہیں کرنا چاہتی کیونکہ ’ قتل کے لیے کوئی منطقی یا معقول وجہ نہیں تھی۔’

ملزمہ نے بتایا کہ وہ صبح ساڑھے آٹھ سے نو بجے کے درمیان اٹھی اور دیکھا کہ اس کے بچے اپنی نانی کے ساتھ ناشتہ کر رہے تھے، اس نے اپنے سابق شوہر سے فون پر رابطہ کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان فون کالز کے دوران کیا بات ہوئی۔

سید اسد رضا کے مطابق ملزمہ نے دعویٰ کیا کہ بچے اسے کہہ رہے تھے کہ ’ انہیں کہیں بھیج دو جہاں وہ ایسی صورتحال کا سامنا نہ کریں، جیسی وہ (ماں) کر رہی ہے۔’

جب ملزمہ سے پوچھا گیا کہ کیا بچے اپنے والد کے ہاتھوں کسی ’ ناپسندیدہ رویے’ کا شکار تھے، تو اس نے وضاحت نہیں کی۔

ڈی آئی جی سید اسد رضا نے کہا کہ ملزمہ نے تسلیم کیا کہ وہ نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے دوائیں لے رہی تھی اور اس نے اپنی خاتون ماہرِ نفسیات کا نام بھی بتایا، پولیس کو شبہہ ہے کہ وہ ممکنہ طور پر نشہ آور ادویات کے اثر میں ہو سکتی ہے۔