جنیوا: پاکستان کی ماحولیاتی انصاف کی کوششیں، ترقی پذیر ممالک کیلئے منصفانہ گرین فنانسنگ کا مطالبہ
جنیوا میں عالمی پلاسٹک معاہدے کے اجلاس کے موقع پر وزیر موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک نے ترقی پذیر ممالک کے لیے منصفانہ گرین فنانسنگ اور وسائل تک رسائی کی ضرورت پر زور دیا۔
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق وزیر موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی ہم آہنگی ڈاکٹر مصدق ملک نے جنیوا میں جاری اجلاس کے دوران ترقی پذیر ممالک کے لیے گرین فنانسنگ اور دیگر سہولیات تک منصفانہ رسائی کی ضرورت پر زور دیا۔
یہ اجلاس پلاسٹک آلودگی کے معاہدے پر مذاکرات کے پانچویں اجلاس کے موقع پر منعقد ہوا، جس کی صدارت ڈاکٹر مصدق ملک نے کی۔
یہ اجلاس جنیوا میں جاری ہے اور 2015 کے پیرس ماحولیاتی معاہدے کے بعد سب سے اہم ماحولیاتی معاہدہ قرار دیا جا رہا ہے، 10 روزہ اس اجلاس میں 185 ممالک کے نمائندے پلاسٹک آلودگی پر قابو پانے کے لیے ایک عالمی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے شریک ہیں۔
ڈاکٹر مصدق ملک کی ٹیم کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے بنگلہ دیش، مصر، تاجکستان، ملائیشیا اور سوڈان کے ساتھ ایک علاقائی مکالمے کی قیادت کرتے ہوئے ایک بریفنگ کا اہتمام کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیر موسمیاتی تبدیلی نے ایک منصفانہ عالمی پلاسٹک معاہدے اور مساوی گرین فنانسنگ کی ضرورت پر زور دیا تاکہ سب سے زیادہ آلودگی اور ماحولیاتی چیلنجز سے متاثرہ ممالک تک مدد پہنچ سکے۔
اجلاس میں وزیر نے نشاندہی کی کہ پلاسٹک کے سب سے زیادہ استعمال کے ذمہ دار ممالک ہی گرین فنانسنگ کے سب سے بڑے مستفید کنندگان ہیں، جب کہ دنیا کے غریب ترین ممالک اکثر موسمیاتی تبدیلی سے خود نمٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اے پی پی کے مطابق ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک ماحولیاتی اور سماجی و اقتصادی اثرات کا سب سے بڑا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ عالمی پلاسٹک مذاکرات میں ایسا معاہدہ ہونا چاہیے جو موسمیاتی تبدیلی اور پلاسٹک آلودگی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کو ترجیح دے۔
ان کا کہنا تھا کہ وسائل اور ٹیکنالوجی تک منصفانہ رسائی کے بغیر ترقی پذیر ممالک عالمی برادری کے مقرر کردہ ماحولیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکتے۔
وزیر موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ علاقائی سطح پر متحد موقف اختیار کر کے پاکستان کا مقصد ترقی پذیر ممالک کی مذاکراتی پوزیشن کو مضبوط کرنا اور معاہدے میں ماحولیاتی و اقتصادی انصاف کو یقینی بنانا ہے۔
بدھ کو ڈاکٹر مصدق ملک نے ’عالمی پلاسٹک فنڈ‘ کے قیام کی تجویز پیش کی، جس کے ذریعے پلاسٹک کریڈٹس کی خرید و فروخت کے لیے ایک عالمی مارکیٹ بنائی جا سکے، اس تجویز کو اجلاس میں شریک کئی ممالک نے سراہا۔
وزیر موسمیاتی تبدیلی کا کہنا تھا کہ جب کافی ممالک اس پر متفق ہو جائیں گے تو اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام سیکریٹریٹ کو یہ ایجنڈے میں شامل کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
عالمی پلاسٹک آلودگی معاہدے پر مذاکرات ناکام
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دنیا بھر میں پلاسٹک آلودگی پر قابو پانے کے لیے ایک تاریخی عالمی معاہدہ کرنے کی کوششیں جمعہ کو اس وقت ناکام ہوگئیں جب ممالک اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ بڑھتی ہوئی آلودگی کا حل کیسے نکالا جائے۔
185 ممالک کے مذاکرات کار جمعرات کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی رات بھر مذاکرات کرتے رہے، لیکن بالآخر کوئی اتفاق رائے پیدا نہ ہو سکا۔
ایک گروپ پلاسٹک پیداوار کو کم کرنے جیسے سخت اقدامات چاہتا تھا، جب کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک صرف فضلہ کے انتظام پر توجہ مرکوز کرنے کے حامی تھے۔
یہ مذاکرات جنیوا میں 5 اگست کو شروع ہوئے تھے، جو گزشتہ سال جنوبی کوریا میں پانچویں اور بظاہر آخری دور کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد بلائے گئے تھے۔
کئی ممالک نے مذاکرات کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا لیکن کہا کہ وہ آئندہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، حالانکہ گزشتہ تین سال میں چھ دور کے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
کیوبا نے کہا کہ ہم نے ایک تاریخی موقع گنوا دیا ہے، لیکن ہمیں آگے بڑھنا ہوگا اور فوری عمل کرنا ہوگا، یہ معاہدہ سیارے اور موجودہ و آئندہ نسلوں کے لیے ضروری ہے۔
’لائک مائنڈڈ گروپ‘ کہلانے والا ایک گروہ، جس میں زیادہ تر تیل پیدا کرنے والے ممالک شامل ہیں، جیسے سعودی عرب، کویت، روس، ایران اور ملائیشیا، وہ چاہتے ہیں کہ معاہدے کا دائرہ کار محدود رکھا جائے۔
کویت نے کہا کہ ہمارے خیالات کی عکاسی نہیں کی گئی، دائرہ کار پر اتفاق کے بغیر یہ عمل درست سمت میں نہیں رہ سکتا اور خطرناک رخ اختیار کر سکتا ہے۔
بحرین نے کہا کہ وہ ایسا معاہدہ چاہتا ہے جو ترقی پذیر ممالک کو اپنے وسائل کے استعمال پر سزا نہ دے۔