پاکستان

فیس لیس کلیئرنس سے گاڑیوں کی درآمد 41 فیصد بڑھ گئی، ریونیو میں معمولی اضافہ

مالی سال 2025 کی دوسری ششماہی میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد تقریباً 41 فیصد بڑھ گئی، تاہم ریونیو میں اضافہ معمولی رہا۔

فیس لیس کسٹمز کلیئرنس کے نفاذ کے بعد گاڑیوں کی درآمد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، تاہم حکومتی آمدنی میں اضافہ توقعات کے مطابق نہیں ہو سکا۔

ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق فیس لیس کسٹمز کلیئرنس کے نفاذ کے بعد مالی سال 2025 کی دوسری ششماہی میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد تقریباً 41 فیصد بڑھ گئی، تاہم ریونیو میں اضافہ معمولی رہا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ حجم کے باوجود مالی فوائد محدود رہے۔

16 دسمبر 2024 سے 30 جون 2025 تک اس نئے نظام کے تحت 25 ہزار 347 گاڑیاں درآمد ہوئیں، جب کہ پرانے نظام کے تحت یکم جون سے 15 دسمبر 2024 کے درمیان 17 ہزار 958 گاڑیاں کلیئر کی گئی تھیں۔

فیس لیس دور میں ریونیو کی وصولی 62 ارب 94 کروڑ روپے رہی جو اس سے پہلے جمع ہونے والے 62 ارب 17 کروڑ روپے سے محض 1.22 فیصد زیادہ ہے۔

حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو تین اسکیموں کے تحت گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیتی ہے، جن میں ذاتی سامان، رہائش کی منتقلی اور گفٹ اسکیم شامل ہیں، ان اسکیموں کے تحت تین سال تک پرانی کاریں اور پانچ سال تک پرانے دیگر وہیکلز درآمد کیے جا سکتے ہیں۔

مالی سال 2025 کے بجٹ میں ان اسکیموں سے ہٹ کر کمرشل بنیادوں پر استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی گئی، تاہم اس پر زیادہ ڈیوٹی اور ٹیکس عائد کیے گئے۔

ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق صرف جولائی 2025 میں ہی 3 ہزار 721 گاڑیاں کلیئر ہوئیں، جو نئے ٹیکس نظام کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔

حکام کے مطابق فرسودگی فی ماہ 1 فیصد کی شرح سے نکالی جاتی ہے، یعنی ابتدائی چھ ماہ میں درآمد شدہ گاڑیوں پر نسبتاً زیادہ ڈیوٹی عائد ہوئی۔

انجن کے حساب سے تقسیم

اعداد و شمار کا قریب سے جائزہ مختلف انجن کیٹیگریز میں متضاد رجحانات ظاہر کرتا ہے۔

850 سی سی سے کم گاڑیوں میں فیس لیس سسٹم سے پہلے 9 ہزار 734 یونٹ کلیئر ہوئے جو بعد میں بڑھ کر 13 ہزار 522 ہوگئے، ڈیوٹی بھی 9 ارب 67 کروڑ سے بڑھ کر 13 ارب 64 کروڑ روپے ہوگئی، مگر فی یونٹ ڈیوٹی تقریباً وہی رہی، یعنی 9 لاکھ 93 ہزار سے 10 لاکھ 9 ہزار روپے۔

850 سے 1000 سی سی کی کیٹیگری میں نمایاں اضافہ ہوا، یونٹس 4 ہزار 126 سے بڑھ کر 9 ہزار 486 ہوگئے اور ریونیو 5 ارب 28 کروڑ سے بڑھ کر 10 ارب 84 کروڑ روپے رہا، تاہم فی یونٹ ڈیوٹی 12 لاکھ 80 ہزار سے کم ہو کر 11 لاکھ 40 ہزار ہوگئی، جو ظاہر کرتا ہے کہ خریدار نسبتاً کم قیمت ماڈلز کی طرف گئے۔

1000 سے 1500 سی سی کی کیٹیگری کی مانگ میں نمایاں کمی آئی، یونٹس 1 ہزار 492 سے گر کر 473 رہ گئے اور ریونیو 6 ارب 59 کروڑ سے کم ہو کر 2 ارب 59 کروڑ روپے ہوگیا، تاہم فی یونٹ ڈیوٹی 44 لاکھ 20 ہزار سے بڑھ کر 54 لاکھ 90 ہزار رہی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ کم تعداد کے باوجود مہنگے ماڈلز درآمد ہوئے۔

1500 سے 1800 سی سی کی کیٹیگری میں سب سے زیادہ کمی ہوئی، یونٹس 376 سے گر کر صرف 36 رہ گئے اور ریونیو 1 ارب 95 کروڑ سے کم ہو کر 25 کروڑ 70 لاکھ روپے پر آگیا، فی یونٹ ڈیوٹی 51 لاکھ 80 ہزار سے بڑھ کر 71 لاکھ 40 ہزار ہوگئی۔

1800 سی سی سے اوپر کی کیٹیگری میں تعداد تقریباً وہی رہی، 1 ہزار 113 سے بڑھ کر 1 ہزار 144 یونٹ، مگر ریونیو 29 ارب 95 کروڑ سے گر کر 25 ارب 83 کروڑ روپے ہوگیا، فی یونٹ ڈیوٹی بھی 2 کروڑ 69 لاکھ 10 ہزار سے کم ہو کر 2 کروڑ 58 لاکھ 30 ہزار رہی۔

ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیاں

چھوٹی ہائبرڈ (1300 سی سی تک) نئے نظام کے بعد مکمل طور پر ختم ہوگئیں۔

1500 سے 1800 سی سی ہائبرڈ گاڑیاں 177 سے کم ہو کر 86 رہ گئیں، مگر فی یونٹ ڈیوٹی 26 لاکھ 60 ہزار سے بڑھ کر 30 لاکھ ہوگئی۔

1800 سی سی سے بڑی ہائبرڈ گاڑیاں 349 سے کم ہو کر صرف 36 یونٹ رہ گئیں، تاہم فی یونٹ ڈیوٹی 43 لاکھ 80 ہزار سے بڑھ کر 1 کروڑ 71 لاکھ 40 ہزار ہوگئی۔

ڈیزل/سیمی ڈیزل ہائبرڈ گاڑیاں 70 سے کم ہو کر 15 رہ گئیں اور فی یونٹ ڈیوٹی بھی 2 کروڑ 73 لاکھ 60 ہزار سے کم ہو کر 2 کروڑ 52 لاکھ 10 ہزار ہوگئی۔

پلگ اِن ہائبرڈ گاڑیاں صرف 17 یونٹ کلیئر ہوئیں مگر فی یونٹ ڈیوٹی 2 کروڑ 64 لاکھ 90 ہزار سے بڑھ کر 5 کروڑ 88 لاکھ 90 ہزار ہوگئی۔

الیکٹرک گاڑیاں نسبتاً مستحکم رہیں، ان کی تعداد 473 سے بڑھ کر 532 یونٹ ہوگئی، تاہم فی یونٹ ڈیوٹی 83 لاکھ 20 ہزار سے کم ہو کر 71 لاکھ 60 ہزار رہی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر چھوٹی یا مڈ رینج ای وی درآمد ہوئیں۔

پالیسی کے اثرات

ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس لیس کلیئرنس سسٹم نے شفافیت بڑھائی اور اختیارات کے غلط استعمال کو کم کیا ہے، تاہم چھوٹی گاڑیوں اور ای وی کی طرف زیادہ رجحان کی وجہ سے حکومت کو مالی فائدہ کم ہوا۔

زیادہ ڈیوٹی والی کیٹیگریز میں درآمدات میں تیزی سے کمی نے مجموعی ریونیو کو کم کردیا، حالانکہ گاڑیوں کی کل تعداد بڑھی۔

یہ صورتحال پالیسی سازوں کے لیے ایک بار پھر وہی پرانا سوال کھڑا کرتی ہے، ریونیو بڑھانے کی ضرورت، عوام کی سستی گاڑیوں کی طلب، اور حکومت کی ماحول دوست اور توانائی مؤثر ٹرانسپورٹ کے فروغ کی مہم، ان سب کے درمیان توازن کیسے قائم رکھا جائے۔