سپریم کورٹ نے بیٹی سے مبینہ ریپ کے ملزم کو شواہد میں تضاد پر بری کردیا
سپریم کورٹ نے اپنی بیٹی سے مبینہ زیادتی کے الزام میں 12 برس سے قید شخص کو بری کردیا، عدالت نے قرار دیا ہےکہ استغاثہ کے شواہد میں تضاد پایا گیا ہے۔
ڈان ڈاٹ کام کو موصول 26 اگست کے عدالتی حکم نامے میں جسٹس علی باقر نجفی نے لکھا کہ استغاثہ کے شواہد ناقابلِ اعتماد پائے گئے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’اپیل کنندہ کی سزا اور جرم ثابت ہونا کالعدم قرار دی جاتا ہے، اگر وہ کسی دوسرے مقدمے میں مطلوب نہیں تو اُسے فوری طور پر رہا کیا جائے‘۔
2010 میں ملزم کی کم عمر بیٹی نے اپنی ماں اور ماموں کو بتایا تھا کہ’اس کے والد نے اُس کے ساتھ ریپ کیا ہے‘۔
حکم نامے کے مطابق 2 اکتوبر 2010 کو متاثرہ بچی، جو اس وقت 6 یا7 برس کی تھی، روتی ہوئی اپنی ماں کے پاس گئی اور انکشاف کیا کہ اس کے والد نے اس کے ساتھ ’فعل بد‘ کیا ہے جس کے بعد اسے شدید تکلیف محسوس ہوئی۔
اس کے بعد والد کو گرفتار کر لیا گیا اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 376(1) کے تحت عمر قید اور 35 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی، 2013 میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی یہ سزا برقرار رکھی۔
ملزم نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس کی سماعت تین رکنی بینچ نے کی۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ماں کے مطابق بیٹی کے ساتھ ’دوپہر 2 بجے زیادتی کی گئی‘ لیکن متاثرہ بچی کے بیان سے اس کی ساکھ پر شکوک پیدا ہوتے ہیں اور اس کے لیے مضبوط تائیدی شواہد درکار ہیں۔
حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’شکایت کنندہ (ماں) کے مطابق بچی کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں اُس کا معائنہ اُس کی موجودگی میں کیا گیا، تاہم ڈاکٹر کی رائے متضاد تھی کیونکہ اپنے بیانِ حلفی میں تو اُس نے کہا کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی لیکن جرح کے دوران اس نے واضح طور پر کہا کہ کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ کی بنیاد پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی‘۔
جسٹس نجفی نے کہا کہ ’اس سے عدالت کے سامنے متاثرہ بچی کے بیان کی ساکھ اور ملزم کے غلط طور پر ملوث کیے جانے کے امکان پر سنگین سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں، ایسے سنگین الزامات کیوں عائد کیے گئے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ریکارڈ میں آیا ہے کہ شکایت کنندہ اور ملزم کے درمیان تنازع موجود تھا‘۔
جج نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ٹرائل کورٹ نے متاثرہ بچی کا بیان ریکارڈ کرنے سے پہلے ’عقلی جانچ‘ نہیں لی، اُن کے مطابق ’بچہ اسی وقت قابلِ قبول گواہ ہوتا ہے جب وہ اتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہو کہ بیان میں حقائق کو درست طور پر بیان کر سکے‘۔
عدالتی حکم کے مطابق ’اگر عدالت سوال و جواب کی بنیاد پر بچے کی ذہنی پختگی کا مشاہدہ درج کرتی تو بیان زیادہ معتبر ہو سکتا تھا، متاثرہ بچی کا بیان مضبوط تائیدی شواہد کا متقاضی ہے‘۔
3 سالہ بیٹی سے ریپ کے ملزم کی ضمانت منظور
دریں اثنا،اسلام آباد ہائی کورٹ نے 3 سالہ بیٹی سے مبینہ ریپ کے ملزم کی ضمانت منظور کر لی۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری نے تحریری فیصلے میں قرار دیا کہ اگر ملزم ضمانت کا غلط استعمال کرے یا ٹرائل میں تاخیر کا باعث بنے تو ضمانت منسوخ کی جا سکتی ہے۔
عدالت نے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت دیتے ہوئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497 کا حوالہ دیا اور کہا کہ مزید انکوائری والے کیسز میں ضمانت دی جا سکتی ہے، صرف جرم کی سنگینی عدالت سے ضمانت دینے کا اختیار چھیننے کے لیے کافی نہیں۔
فیصلے میں سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا کہ ضمانت ملزم کی بریت نہیں بلکہ صرف کسٹڈی کی تبدیلی ہوتی ہے، ضمانت کا مطلب یہ ہے کہ ملزم کو حکومتی ایجنسیوں کی تحویل سے ضامن کے سپرد کیا جائے اور ضامن اس بات کا پابند ہو کہ ضرورت پڑنے پر ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرے۔
تحریری فیصلے کے مطابق پٹیشنر محمد حسیب حفیظ 3 ماہ سے جیل میں تھا اور ٹرائل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی، پٹیشنر کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ یہ گھریلو جھگڑے کا معاملہ ہے اور ملزم کو جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔
عدالت نے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شکایت کنندہ بچی کی ماں ہے جس کی یہ دوسری شادی تھی اور اس نے خلع کا دعویٰ بھی دائر کر رکھا ہے، پمز ہسپتال کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بچی کی ماں نے ڈاکٹرز کو مبینہ زیادتی کے متعلق بتایا، تاہم متاثرہ بچی کے عدم تعاون کی وجہ سے طبی معائنہ ممکن نہیں ہو سکا، میڈیکو لیگل رپورٹ میں بھی کسی قسم کے زخم، رگڑ یا خون کے نشانات نہیں پائے گئے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس بات کا کوئی معقول جواز موجود نہیں کہ ایک حساس ادارے سے تعلق رکھنے والا پڑھا لکھا شخص اپنی 3 سالہ بچی سے زیادتی کرے، تفتیشی افسر نے بھی اعتراف کیا کہ ملزم کا نفسیاتی معائنہ نہیں کرایا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سخت قوانین موجود ہونے کے باوجود زیادتی کے مقدمات سامنے آتے رہتے ہیں، جن میں سزائے موت سے لے کر 10 سے 25 برس قید تک کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
گزشتہ برس بچوں سے جنسی زیادتی کے کیسز پر کام کرنے والی این جی او ’ساحل‘ کے جمع کردہ اعداد و شمار میں انکشاف کیا گیا کہ اکثری مجرم یا تو رشتہ دار تھے یا پھر کمیونٹی میں شناسا افراد اور پڑوسی۔
رواں برس مارچ میں بہاولپور میں 11 سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے 4 ملزمان بھی اسی کے رشتہ دار نکلے تھے، جن میں سے دو سگے ماموں تھے، بعدازاں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزمان مبینہ مقابلے میں اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے تھے۔