لائف اسٹائل

وائرل رپورٹر گرل نے بی بی سی کو کاپی کرنے پر وضاحت دے دی

لاہور سے تعلق رکھنے والی مہرالنسا پنجابی انداز میں منفرد رپورٹنگ کی ویڈیوز کی وجہ سے وائرل ہوئی تھیں۔

حال ہی میں پنجاب میں سیلابی رپورٹنگ اور اس سے قبل ایرانی صدر کے دورے کے دوران منفرد انداز میں رپورٹنگ کرکے وائرل والی رپورٹر نے برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ اردو کو کاپی کرنے پر وضاحت دے دی۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی مہرالنسا پنجابی انداز میں منفرد رپورٹنگ کی ویڈیوز کی وجہ سے وائرل ہوئی تھیں۔

حال ہی میں پنجاب میں آنے والے سیلاب کی رپورٹنگ کے دوران ان کی متعدد ویڈیوز وائرل ہوئیں، جن میں انہیں سیلابی پانی کے اندر جاکر رپورٹنگ کرتے بھی دیکھا گیا۔

حالیہ سیلابی رپورٹنگ کی ویڈیوز وائرل ہونے سے قبل مہرالنسا کی ویڈیوز چند ہفتے قبل ایرانی صدر کے پاکستانی دورے کے دوران بھی وائرل ہوئی تھیں۔

مہرالنسا نامی لڑکی کی ایرانی صدر کی لاہور آمد کے دوران بنائی گئی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس کے بعد ہی وہ میڈیا کی نظروں میں آئیں۔

وائرل رپورٹر گرل کے ہاتھ میں ’بی بی سی اردو پنجابی نیوز ٹی وی‘ کا مائیک دیکھا گیا، جس پر دیکھنے والے زیادہ تر افراد نے سمجھا کہ شاید وہ برطانوی نشریاتی ادارے کے لیے کام کرتی ہیں۔

ان کے ہاتھ میں موجود مائیک کا نہ صرف نام بلکہ لوگو اور مائیک کا رنگ بھی برطانوی نشریاتی ادارے کے مائیک اور لوگو سے مشابہ تھا۔

رپورٹر کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد بی بی سی اردو نے وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مہرالنسا ان کے ادارے کی ملازم نہیں، نہ ادارے نے خاتون رپورٹر کو اپنا نام اور لوگو استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

ادارے نے لڑکی کا نام لکھے بغیر واضح کیا کہ مذکورہ لڑکی سے برطانوی نشریاتی ادارے کا کوئی تعلق نیں جب کہ لڑکی کی ڈیجیٹل میڈیا کمپنی اجازت کے بغیر ’بی بی سی‘ کا نام استعمال کر رہی ہے۔

ادارے نے صارفین کو تجویز دی کہ وہ اس طرح کا کوئی بھی مواد دیکھنے سے قبل بی بی سی کے آفیشل پلیٹ فارم پر مواد کی تصدیق کیا کرے، ایسے مواد سے برطانوی نشریاتی ادارے کا کوئی تعلق نہیں۔

بی بی سی کی جانب سے جاری بیان کے بعد وائرل رپورٹر نے بھی وضاحت پیش کردی اور بتایا کہ ان کے ’بی بی سی‘ کا مطلب برطانوی نشریاتی ادارہ نہیں۔

مہرالنسا کا کہنا تھا کہ ان کے ’بی بی سی‘ کا مطلب ’بھائی بھائی چینل‘ ہے اور یہ کہ وہ برطانوی نشریاتی ادارے کو کاپی نہیں کر رہے، برطانوی نشریاتی ادارہ ان سے ای میل پر رابطہ کرکے وضاحت معلوم کر سکتا ہے۔