ڈالر کی کمی روپے کے مصنوعی استحکام کیلئے چیلنج بن گئی
پاکستانی روپے پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے کیونکہ ڈالر کی طلب میں اضافہ اور کیش ڈالرز کی شدید کمی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے ایکسچینج کمپنیاں مشکلات سے دوچار ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کرنسی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ خاص طور پر ملک بھر میں تباہ کن سیلاب جیسے غیر متوقع واقعات کے بعد روپے کو سہارا دینے کے لیے کیے گئے انتظامی اقدامات الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
جولائی میں حکومتی کریک ڈاؤن اور سخت نگرانی کے بعد روپے میں قدرے استحکام دیکھا گیا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ رجحان زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتا اگر طلب رسد پر غالب رہی۔
کرنسی ڈیلرز کے مطابق بیشتر ایکسچینج کمپنیاں امریکی ڈالر کی شدید کمی کا شکار ہیں، جس سے ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
ایک ڈیلر نے کہا کہ اسمگلنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن اب ذخیرہ اندوزی کے امکانات نمایاں ہو رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ غیر قانونی کرنسی آپریٹرز کی سرگرمیوں میں اضافہ بھی صورتحال کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔
ٹریزمارک کے سی ای او فیصل مامسا نے خبردار کیا کہ جب بنیادی عوامل کسی کرنسی کے خلاف ہوں تو کوئی قوت مارکیٹ کو نہیں ہرا سکتی، ان کے مطابق روپے کو انتظامی اقدامات کے ذریعے مصنوعی طور پر مضبوط بنایا گیا ہے جس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں حقیقی کیش لین دین سست پڑ گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ایکسچینج کمپنیاں بمشکل ہی فارن ایکسچینج کیش رکھ پا رہی ہیں۔
اس صورتحال کا منفی اثر ترسیلات زر پر بھی متوقع ہے، فیصل مامسا کا کہنا ہے کہ اس سے دوبارہ حوالہ ہنڈی اور کرپٹو کرنسی کے ذریعے لین دین کو فروغ مل سکتا ہے جو زرمبادلہ کی غیر رسمی منڈیوں کو تقویت دیتے ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین نے تصدیق کی کہ 2024 کے وسط سے روپے کی مضبوطی زیادہ تر انتظامی کنٹرول اور زرمبادلہ کی آمد میں اضافے کی وجہ سے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اوور کریکشن سے بچنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے مارکیٹ سے 7.8 ارب ڈالر خریدے ہیں جس سے ذخائر بڑھ کر 14.5 ارب ڈالر (تقریباً 2.3 ماہ کی درآمدی ضروریات) تک جا پہنچے ہیں، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ سطح پر روپیہ منصفانہ قدر پر ہے اور استحکام برقرار رکھنے کے لیے مداخلت ضروری ہے۔
دوسری طرف برآمدکنندگان اپنی آمدنی روک کر بیٹھے ہیں جس سے مارکیٹ میں رسد مزید سکڑ گئی ہے اور ایک غیر یقینی سکون کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، یعنی بظاہر استحکام لیکن درحقیقت سپلائی تیزی سے ختم ہو رہی ہے، ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر زرمبادلہ کی آمد میں تعطل برقرار رہا تو روپے پر دباؤ میں شدت آ سکتی ہے جس کے نتیجے میں اچانک اور بڑی گراوٹ کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ امریکا کی جانب سے بھارتی ٹیکسٹائل مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد ہونے سے پاکستان کے لیے 16 ارب ڈالر کی مارکیٹ دستیاب ہو گئی ہے، مزید یہ کہ امریکا کو پاکستانی برآمدات پر 19 فیصد ٹیرف ہے جو بنگلہ دیش اور ویتنام سے نسبتاً بہتر ہے کیونکہ ان دونوں ممالک کو 20 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے۔