حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات کے تناظر میں قوم کو مزید قربانیوں کے لیے تیار رہنے کی تلقین کر رہی ہے، لیکن اس نے اپنے شاہانہ اخراجات کو روکنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔
ترسیلات زر میں نمو پہلے ہی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے تجاوز کر گئی ہے جو کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر معیشت کے بڑھتے ہوئے انحصار کی عکاسی کرتی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز ریفارم پروگرام کیلئے 30 کروڑ ڈالر قرض کے معاہدے پر دستخط کیے، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اصلاحات کرنے میں ناکام رہے۔
پاکستان میں کسی بھی آزاد معاشی ماہرین نے ٹیکسوں سے بھرے بجٹ 2024-2025 کی حمایت نہیں کی اور حکومت کو عوام کی معاشی اور مالی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
.
بینکوں سے بہت بڑا قرضہ اس وقت لیا گیا جب شرح سود غیر معمولی طور پر 22 فیصد پر تھی، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ قرض کی ادائیگی کا حجم بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔
اسٹیٹ بینک بجٹ میں اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے اندھیرے میں ہے، جس کے نتیجے میں وہ شرح سود کو قابل انتظام حد میں برقرار رکھنے پر مجبور ہو سکتا ہے، حالانکہ حقیقی شرح سود 10.2 فیصد زائد ہے، ماہرین
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 میں جولائی تا اپریل کے دوران 88 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا منافع بیرون ملک منتقل کیا گیا، جس کا حجم گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 25 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہا تھا۔
آئی ایم ایف نے اسٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے سے پہلے درآمدی پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ کیا تھا تاکہ 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت 1.1 ارب کی آخری قسط جاری کی جاسکے۔