پاکستان

آبی گزرگاہوں پر کمرشل تعمیرات کی گئیں، جس سے تباہی وبربادی ہوئی، وزیر دفاع

جمہوری ادوار میں ڈیمز پر اتفاق رائے نہیں ہوتا، ہم خود اس طرح کے قومی مفادات پر مسائل کھڑے کرکے اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں، کسی نہر یا ڈیم بنانے پر سڑکیں بند نہیں کرنی چاہیے، مگر کیا کریں دکانداری ہے، خواجہ آصف کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آبی گزرگاہوں پر کمرشل تعمیرات کی گئیں، دریاؤں کی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائیٹیز بنائی گئیں جس سے حالیہ سیلاب میں تباہی وبربادی ہوئی۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں حالیہ سیلابی صورتحال پر بحث کی تحریک پیش کی گئی، تحریک وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری نے پیش کی۔

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سیلابی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ آفت قدرتی آفت نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اعمال ہیں کہ ہم اتنی بڑی آفت کا سامنا کر رہے ہیں، ہم نے دریاؤں پر ہوٹل بنالیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دریاؤں کے راستوں کو تنگ کرکے ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنائی جا رہی ہیں، نالوں کے اندر پلاٹ بناکر بیچ دیے گئے، جب آپ قدرت کے ساتھ کھلواڑ کریں گے تو فطرت اس کا جواب دے گی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ سیلاب جب بھی آتا ہے تو کہا جاتا ہے اتنے ارب ڈالر کا نقصان ہوگیا، ہر سال سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہم دنیا اور یو این سے مدد مانگتے ہیں مگر اپنے اعمال درست نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ دریاؤں کی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنائی گئیں، سیالکوٹ میں دریا کے راستوں کو آباد کردیا گیا ہے, آبی گزرگاہوں پر تعمیرات کی وجہ سے پانی آبادیوں میں داخل ہوتا ہے لیکن ہم نے گزشتہ برسوں میں تجاوزات کے خلاف کتنی کارروائیاں کیں؟

انہوں نے کہا کہ یہاں علی محمد خان نے بات کی کہ ہمارے ملک میں آمریت میں ڈیمز بنائے گئے اور یہ بالکل درست بات ہے کیوں کہ ان کے پاس طاقت ہوتی ہے، مگر جمہوری ادوار میں ڈیمز پر اتفاق رائے نہیں ہوتا، سیاسی ادوار میں کوئی اوپر کوئی نیچے تو کوئی ادھر ادھر دیکھ رہا ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی ہماری دکانداری ہوتی ہے، ہم اس طرح کے قومی معاملات پر مسائل کھڑے کرکے سیاست کرتے ہیں اور اسی پر اپنی دکان چمکاتے ہیں، ہم اس پر سیاست کرتے ہیں اور یہی بدقسمتی ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ علی محمد خان نے جن دو ڈیموں مہمند اور بھاشا ڈیم بات کی، انہیں بننے میں 15 سال لگ جائیں گے، اور میں نہیں چاہتا کہ وہ نہیں بنیں بالکل بنیں لیکن تب تک ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا، ان ڈیموں کا انتظار کرنے کے بجائے درجنوں چھوٹے ڈیمز بنائیں جو ایک آدھ سال میں بن جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے رویے بھی تبدیل کرنا ہوں گے، یہ قومی مفادات ہیں اور ان پر ہرگز اختلافات نہیں ہونے چاہیے، ہم کم از کم عوامی معاملات پر تو اتفاق کرلیں جس کا تعلق ہمارے اقتدار سے نہیں بلکہ خالصتاً عوام سے ہو، کسی نہر یا ڈیم بنانے کی بات ہوتی ہے تو سڑکیں بند نہ کریں مگر کیا کریں دکانداری ہے۔

انہوں نے کہا کہ کلائمٹ اور پانی کا مسئلہ سیاسی نہیں قومی، بلکہ بین الاقوامی ہے، اس پر ہمیں کم از کم مل بیٹھنا چاہیے اور اس کا ردعمل بھی اسی طرح دینا چاہیے۔