یوکرین کیلئے یورپی یونین کی ممکنہ رکنیت کی کبھی مخالفت نہیں کی، پیوٹن
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ ماسکو نے کبھی بھی یوکرین کی یورپی یونین کی ممکنہ رکنیت کی مخالفت نہیں کی، روس اور یوکرین دونوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ الاسکا میں پیوٹن کے ساتھ سربراہی ملاقات کے بعد کہا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ پیوٹن یوکرین کی جنگ سے ’ تھک’ گئے ہیں لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے سب سے تباہ کن تنازع کو ختم کرکے امن قائم کیا جاسکتا ہے۔
یوکرین اور مغربی یورپی طاقتوں کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پیوٹن یوکرین میں امن کے لیے سنجیدہ ہیں، اور خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے یہ جنگ جیت لی تو پیوٹن یورپ اور امریکی قیادت میں قائم نیٹو فوجی اتحاد پر حملہ کر سکتے ہیں۔
الاسکا سربراہی اجلاس کے بعد اپنے بیانات میں، پیوٹن نے چین میں خطاب کرتے ہوئے ان دعوؤں کو رد کیا، اور انہیں’ خوفناک کہانیاں’ قرار دیا، جو ان کے مطابق نااہل لوگ روس کو دشمن ثابت کرنے کے لیے پھیلا رہے ہیں۔
پیوٹن نے کہا کہ روس کو یوکرین میں اس لیے کارروائی کرنا پڑی کیونکہ مغرب نیٹو کی مدد سے پورے خطے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔
روسی صدر نے چین میں سلوواکیہ کے وزیر اعظم رابرٹ فیکو سے بات چیت کے دوران کہاکہ ’ جہاں تک یوکرین کی یورپی یونین کی رکنیت کا تعلق ہے، ہم نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا، اور جہاں تک نیٹو ( کی رکنیت ) کا تعلق ہے تو یہ ایک اور معاملہ ہے… ہمارا مؤقف یہاں سب کو معلوم ہے کہ ہم اسے اپنے لیے ناقابلِ قبول سمجھتے ہیں۔’
سفارتکاروں اور مذاکرات میں شامل حکام کے مطابق، یوکرین کے لیے ممکنہ سلامتی کی ضمانت، جسے امریکا اور مغربی یورپی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو، مستقبل کے کسی بھی امن معاہدے کا سب سے مشکل حصہ ہے۔
یوکرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ روس کے کرنے کا نہیں کہ کیف کس اتحاد میں شامل ہو سکتا ہے یا نہیں، جبکہ نیٹو کا کہنا ہے کہ روس کو 1949 میں سوویت یونین کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے اس اتحاد میں رکنیت پر کوئی ویٹو اختیار حاصل نہیں۔
ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ انہوں نے 15 اگست کو ٹرمپ کے ساتھ اپنی سربراہی ملاقات میں یوکرین کی سلامتی پر بات کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ’ جنگ کے خاتمے کی صورت میں یوکرین کی سلامتی کو یقینی بنانے کے کئی آپشنز موجود ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ یہاں اتفاق رائے پیدا کرنے کا موقع موجود ہے۔’
پیوٹن نے کہا کہ روس، امریکا کے ساتھ زاپوروزہیا جوہری بجلی گھر میں تعاون کے لیے تیار ہے، جو یورپ کا سب سے بڑا جوہری پلانٹ ہے، روس نے اس پر مارچ 2022 میں، یوکرین پر حملے کے فوراً بعد، قبضہ کر لیا تھا۔
ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ’ ہم زاپوروزہیا جوہری بجلی گھر میں امریکی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں، ’ روسی صدر نے مزید یہ بھی بتایا کہ اس معاملے پر بالواسطہ طور پر واشنگٹن کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے اور وہ حتیٰ کہ یوکرین کے ساتھ بھی اس پلانٹ میں کام کرنے کو تیار ہیں۔