نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (سینتیسویں قسط)

19ویں صدی میں خراج لینا یا دینا طاقت کے توازن کا کھیل تھا یعنی اس وقت جو زیادہ طاقتور ہوتا تھا وہ کمزور کو نگل جاتا تھا جبکہ یہی خراج دوستیاں اور دشمنیاں پیدا کرتا تھا۔

اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


مجھ سے اگر کوئی کہے یا پوچھے کہ انسان جو دیگر جانداروں سے مختلف ہے اور شعور کی گٹھڑی اس کے سر پر فطرت نے رکھی ہے، شعور، لاشعور اور تحت الشعور کا دھنی ہے، اچھے برے کی پرکھ رکھتا ہے مگر یہ کیا ہے کہ جب وہ ذاتی مفادات کے حصول کے لیے نکلتا ہے تو پھر اس کے آگے نہ اچھا نہ کچھ برا نظر آتا ہے؟

ہم جو گزشتہ زمانوں کی جنگوں اور وحشتوں پر حیران ہوتے ہیں، حالیہ شب و روز میں جو ہماری دھرتی پر ہو رہا ہے کیا وہ ماضی کی وحشتوں سے کسی طور کم ہے؟ ہم اگر تاریخ کے آئینے میں دیکھیں اور گزرے وقتوں کا جائزہ لیں تو ہمیں اپنے آپ سے ہی شرمندہ ہونا پڑے گا۔

چلیے یہ سمجھنے سمجھانے کا سلسلہ تو چلتا رہے گا۔ ہم گزشتہ قسط میں تالپور حکمرانوں اور ایران کے بادشاہوں کی دوستی کا ذکر کر رہے تھے۔ تو میر فتح علی خان تالپور کے بعد میر غلام علی تالپور کے بھی ایران کے بادشاہ فتح علی شاہ قاچار (حکومت 17 جون 1797ء سے 23 اکتوبر 1834ء) سے اچھے روابط رہے۔

ان کے درمیاں خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہتا اور ان تحریروں میں ایک دوسرے کو اپنے ملک کے حالات سے آگاہی ملتی۔ یہی سبب ہے کہ اسی زمانے میں ایران سے نقاش، صراف، کاتب اور بندوق ساز یہاں آئے اور سندھ کے حاکموں نے ان کی ہمت اور عزت افزائی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ یہاں تک کہ انہیں رہنے کے لیے قلعہ میں بڑی فراخ دلی سے رہائش دی۔ 1805ء میں فتح علی قاچار نے اپنا ایک سفیر سید مرزا اسمٰعیل، میر غلام علی کے دربار میں بھیجا تھا، سید مرزا اسمٰعیل اس سے پہلے بھی 1799ء میں سندھ کے دربار میں سفیر کے طور پر آیا تھا۔ بہرحال یہ کہ ایران کی دوستی سندھ کے امیروں کے ساتھ گہری اور مضبوط رہی یہاں تک کہ آگے چل کر ایک زمانے میں باتیں رشتہ داریوں تک جا پہنچی تھیں۔

سندھ کے امیروں کا سب سے بڑا سر کا درد کابل کو سالانہ خراج دینا تھا۔ اس سے جان چھڑوانے کے لیے تالپور سرکار انگریز سرکار سے امید لگا بیٹھی تھی مگر یہاں کے بیوپاری اور عوام، گوروں کے حق میں نہیں تھے۔ دریانو مل جب 1812ء میں کراچی سے حیدرآباد کی ایک شادی میں شرکت کرنے کے لیے گیا تھا تب سندھ کے حاکموں کو کہا تھا کہ انگریز کتنے بھی دوستی کے معاہدے کرلیں وہ انہیں کبھی پورے نہیں کریں گے۔ اور کچھ بھی کرکے سندھ پر قبضہ کر ہی لیں گے۔ جبکہ تالپوروں کی سب سے بڑی کمزوری جو ابھی تک ہم سمجھ سکے ہیں وہ ایک پیشہ ورانہ فوج کا نہ ہونا تھا۔ دوسرا سبب ان کی آپس میں جو اختلافات تھے، وہ ان کے لیے سیاسی طور پر مستحکم ہونے میں بڑی رکاوٹ تھے۔

ان کے پاس سندھ کو بہتر بنانے کے لیے خواب اور تمنائیں ضرور تھیں۔ اگرچہ گاؤ تکیہ پر ٹیک لگائے اچھے خواب ضرور دیکھے جا سکتے ہیں لیکن عملی میدان میں یہ اچھی تمنائیں اور سپنے کھوٹے سِکوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔ کھوٹے سکے کی بدقسمتی یہ ہے کہ وقت اس کو زنگ آلود کر دیتا ہے اور جب سکہ زنگ آلود ہوجائے تو اس سے وقت کھنک بھی چھین لیتا ہے جس کے بعد وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔

19ویں صدی کی دوسری دہائی سندھ کے حاکموں کے لیے پُرسکون نہیں گزرنے والی تھی۔ کبھی کبھار یہ ہوتا ہے کہ پریشانیوں، بیوقوفیوں اور مجبوریوں کے بیج کوئی اور بوتا ہے مگر ان خاردار جنگلات کو کاٹنا کسی اور کو پڑتا ہے۔

یہاں کی سیاست اور کرسی کی کہانی خراج کے کھنکتے سِکوں کے گرد ہی چکر کاٹتی نظر آتی ہے۔ ہم اگر دور نہ جائیں اور صرف کلہوڑوں کے دور حکومت کا تجزیہ کریں تو ہمیں ایک تکون نظر آتا ہے۔ سندھ کے جنوب مشرق میں کَچھ بھج جہاں رائے خاندانوں کی حکومت تھی جن پر کلہوڑا حاکم حملے بھی کرتے تھے اور خراج بھی لیتے تھے۔ سندھ کے شمال مشرق میں کابل قندھار کے افغان حاکم تھے جو سندھ پر حملہ آور بھی ہوتے تھے اور خراج بھی لیتے تھے۔

یہ فطرت کے اصول کے مطابق طاقت کے توازن کا کھیل تھا۔ جو زیادہ طاقتور ہوگا وہ کمزور کو نگل جائے گا۔ ان حملوں میں نہ ذاتی بنیادوں پر دشمنیاں ہوتی ہیں اور نہ دوستیاں۔ وقت کے ساتھ سب بدلتا رہتا ہے۔ جو وقت پر طاقتور کو خراج (غنڈہ ٹیکس) دے گا وہ اس کا اچھا پڑوسی اور دوست ہوگا اگر وہی حکومت خراج دینے میں آنا کانی کرے تو وہ دشمن ہو جائے گی۔

ہم چونکہ سندھ کا ذکر کر رہے ہیں تو ہم اپنی باتوں کا دائرہ وہیں تک محدود رکھتے ہیں۔ میں پہلے 17ویں صدی کے خراج کی مختصر سی تاریخ آپ کو بتاؤں گا۔ اس کے بعد پھر تالپور سرکار کے زمانے میں خراج کے سلسلے میں ہونے والی ایک دلچسپ واقعات سے بھری کہانی آپ کو سناؤں گا۔ ایک ایسے حاکم کی جس کے پاس تخت نہیں تھا مگر وہ پھر بھی خراج لینے کے لیے نگر نگر پھرتا تھا کیونکہ اس کے پاس اس کی طاقتور فوج تھی۔

کلہوڑا دور حکومت (1620ء سے 1783ء) کے سیاسی حالات اور باہر کے حاکموں کے حملوں اور خراج کا ذکر مختصراً کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ کلہوڑا دور حکومت کے بعد تالپوروں کا زمانہ آیا تو خراج طاقتور اور کمزور کے بیچ میں ایک روایت کی حیثیت حاصل کر چکا تھا۔ جیسے کلہوڑا خاندان کا خزانہ جو میاں نور محمد نے 1740ء میں نادر شاہ افشار کو دیا اس کی مالیت ایک کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔

محقق محمد ابراہیم جویو صاحب لکھتے ہیں کہ ’سندھ پر اچانک ایک مصیبت نادر شاہ ایرانی کی صورت میں آ کر نازل ہوئی، میاں یار محمد اور میاں نور محمد کلہوڑو نے تقریباً 40 برسوں میں جو آبپاشی اور زراعت کو بہتر بنانے پر توجہ دی تھی جس کے نتیجے میں زمینیں سونا اُگلنے لگی تھیں، اور ان برسوں میں جو جمع پونجی سرکاری خزانے میں جمع تھی وہ نادر شاہ کے حوالے کر دی گئی‘۔ ساتھ ہی سالانہ 20 لاکھ خراج بھی مقرر کیا گیا۔

1752ء میں احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر تیسرا حملہ کیا جس کا مقصد لاہور اور ملتان تک پہلے والے ناظم معین الملک کا اقتدار ختم کرکے مغل سلطنت سے لاہور کو الگ کرنا تھا۔ اس کامیاب افغان حملے میں معین الملک گرفتار بھی ہوا مگر بات چیت کے دروازے کہاں بند ہوتے ہیں۔ بات چیت ہوئی اور معین الملک عرف میر مَنو کو پھر سے وہی ذمہ داری دی گئی کہ وہ ملتان اور لاہور کا ناظم بنا رہے کیونکہ تان کھنکتے سکوں پر ہی آ کر ٹوٹی اور خراج کی رقم کو بڑھا دیا گیا۔

غلام رسول مہر ’تاریخ کلہوڑا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اس حملے کے بعد جب ابدالی نے خراج دینے کے لیے سندھ کے حاکم کو پیغام بھیجا تو میاں نور محمد نے کوئی انکار نہیں کیا بلکہ اس کے پیغام کے جواب میں بڑی رقم، بہت سارے تحائف کے ساتھ معتبر امیروں کا ایک وفد بھی خیرسگالی کے طور پر بھیجا جس کی قیادت اس کے بھائی نے کی۔ اس طرح ابدالی سے میاں نے خوشگوار تعلقات قائم کیے اور شیخ محمد محفوظ ’سرخوش‘ قندھار میں سندھ کا وکیل مقرر ہوا’۔

میاں نور محمد کلہوڑو کی وفات 7 دسمبر جمعہ کو ہوئی تھی۔ 11 دسمبر 1753ء منگل کی شب امیروں نے کٹھ بلایا اور فیصلہ کرکے میاں نور محمد کے بڑے بیٹے محمد مرادیاب خان کو سندھ کا نیا حاکم مقرر کیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جب تک افغانستان سے حکومت کرنے کے لیے پروانہ جاری نہ ہوتا تب تک مرادیاب کو بطور حاکم تسلیم نہیں کیا جاتا۔

اب پروانہ جاری کرنے کے لیے لین دین تو کرنا پڑتی ہے اور لین دین کچھ اس طرح سے ہوئی کہ دیوان گدومل نے وکیل کی حیثیت سے قندھار حکومت سے بات کی۔ پہلے سے زیادہ خراج دینے کا وعدہ کیا گیا، تحفے تحائف کے اونٹ لد کر افغان بادشاہ کے لیے پہنچے اور بات اتنے پر ہی نہیں رکی بلکہ ضمانت کی بھی مانگ کی گئی۔ مطلب وہی کہانی دنیا میں ہر جگہ پر دہرائی جا سکتی ہے۔ عرب اور اونٹ والی!

غلام شاہ کلہوڑو دوسری بار عید کے دن یعنی یکم شوال 1171ھ یا بدھ 7 جون 1758ء میں سندھ کا حاکم بنا۔ وہ 6 یا 7 ماہ سے زائد حکومت نہیں کرسکا کیونکہ عطر خان نے احمد شاہ ابدالی کو اپنے حاکم ہونے کے لیے راضی کرکے اس کی پوری توجہ اور مدد حاصل کرلی اور پروانہ حاصل کرلیا تھا۔ مگر پھر وقت بدلا اور غلام شاہ کلہوڑو نے خراج اور تحائف سے بھرے اونٹوں کی قطار جو ابدالی سرکار کی رضامندی کے لیے بھیجی تو سِکوں کی چمک اور دوسرے بھیجے گئے تحائف نے اپنا جلوہ دکھایا اور پروانہ میاں کے نام کا نکلا۔

ان دنوں قندھار میں سندھ دربار کا سفیر گدومل تھا۔ خراج ملنے کے بعد افغان سرکار نے میاں غلام شاہ کو 2 خطابات بھی عطا کیے۔ پہلا خطاب ’ہزیر جنگ شاہ ویردی خان‘ تھا جو 1761ء میں ملا جبکہ خطاب کے ساتھ ایک ہاتھی اور ساتھ میں تحفے تحائف بھی ملے تھے۔ دوسرا خطاب ’صمصام الدولہ‘ تھا یہ تب ملا جب غلام شاہ نے نیا ’شاہ پور‘ (سکرنڈ کے قریب) آباد کیا تھا۔

اب ہم 1815ء یعنی تالپوروں کے زمانے میں لوٹتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے مختصر ذکر افغانستان کے سیاسی اُتھل پتھل کا کریں گے کیونکہ افغانستان، ایران، بلوچستان، پنجاب، راجستھان اور کَچھ کے سیاسی ذکر کے علاوہ ہم اس خطے کی تاریخ کے سیاسی و معاشی حالات کو اچھی طرح سمجھ نہیں پائیں گے۔

یہ تمام سندھ کے چاروں جانب نزدیک ترین حکومتیں تھیں جن کے سیاسی اور معاشی حالات کا براہ راست اثر سندھ کی سیاست اور اقتصادیات پر پڑتا تھا۔ اس لیے ہم اگر ان ممالک یا علاقوں میں جنم لینے والے اہم واقعات کا ذکر نہیں کریں گے تو آنے والے دنوں میں ہمیں کچھ حقائق کو سمجھنے میں پریشانی پیش آ سکتی ہے۔

خراسان (افغانستان) جہاں تیمور شاہ درانی کی وفات کے بعد اس کی اولاد (8 بیٹے) تخت و تاج کے لیے دست و گریباں تھے، آخرکار تیمور کے بعد شاہ شجاع کا بڑا بھائی زمان شاہ اسی دن تخت پر بیٹھا جس دن اس کے باپ نے وفات (ہفتہ 18 مئی 1793ء) پائی۔ اس نے تقریباً دو برس تک حکومت کی اور 25 جولائی 1801ء میں اس کے بھائی محمود شاہ نے اسے معزول کرکے آنکھوں میں گرم سلائی پھیر کر اندھا کر دیا۔

اتفاق یہ کہ محمود شاہ بھی دو برس تک ہی حکومت کر سکا۔ اسے اس کے بھائی شاہ شجاع نے 13 جولائی 1803ء میں معزول کرکے خود تخت پر بیٹھ گیا۔ 6 برس کی حکومت کے بعد محمود شاہ، شاہ شجاع کو 3 مئی 1809ء میں معزول کرکے پھر تخت پر بیٹھ گیا اور تقریباً 9 برس تک حکومت کی۔ اس کے بعد مزید دو درانی حاکم آئے اور اس طرح 1823ء تک درانی دور حکومت چلا۔ اس کے بعد ’بارکزئی‘ قبیلے کا امیر دوست محمد خان تخت پر بیٹھا۔

شاہ شجاع کی خراج کے پیچھے بھاگ دوڑ اور کوہ نور ہیرا گنوانے کی دلچسپ کہانی میں آپ کو سناتا ہوں۔ وہ شاید پہلی بار 1806ء میں اپنے وزیر شیر محمد کے ساتھ خراج کی وصولی کے لیے شکارپور آیا تھا۔ ان شب و روز میں شکارپور افغان سرکار کا ایک حصہ تھا۔ وہاں کے گورنر کابل سے مقرر ہوتے تھے۔ شاہ شجاع نے بڑے طمطراق سے شکارپور کے شاہی باغ میں آ کر ڈیرا ڈالا۔

تین ماہ تک سندھ کے حاکموں نے خراج دینے کے ساتھ تحائف دے کر اسے واپس خراسان بھیجا۔ یہ سب شاہ شجاع کو اچھا لگا۔ واپس جاتے وقت اس نے اپنے بھائی کے مقرر کیے گئے گورنر سکو سنگھ کو معطل کر کے اپنا آدمی نواب محمد خان پوپلزئی کو گورنر مقرر کیا اور بنوں کے راستے کابل روانہ ہوا۔

شاہ شجاع دوسری بار 1810ء میں شکارپور آیا ساتھ میں اس کے وزرا بھی تھے۔ ان دنوں کابل کے تخت پر محمود شاہ حاکم تھا مگر کچھ قبائل کے ساتھ ہونے کی وجہ سے شاہ شجاع کے پاس اپنی الگ فوج تھی تو طاقت اور خراسان سلطنت کے نام پر وہ دندناتا پھرتا تھا اور شکارپور بھی وہ سندھ کے حاکموں سے خراج لینے ہی آیا تھا۔

خراج حاصل کرنے کے لیے بس طاقت کا ہونا ضروری ہے۔ کوئی حاکم ہو نہ ہو اگر اس کے پاس اپنی فوج کی طاقت ہے تو وہ تھوڑے سے کمزور حکومت کے حاکموں کو گلے سے پکڑ کر پیسے لے سکتا تھا۔ اس بار یعنی 1810ء میں سندھ کے حاکموں نے خراج نہ دینے کے بہت بہانے بنائے کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ کل تخت پر بیٹھا ہوا محمود شاہ بھی خراج کے لیے آن دھمکے گا۔ جب شجاع نے محسوس کیا کہ خراج ملنے کی امید نہیں ہے تو دیدہ دلیری یہ دکھائی کہ سندھ کے وزیراعظم نواب ولی محمد لغاری کو اپنے ساتھ یرغمال بنا کر ساتھ لے گیا۔

ڈیرہ غازی خان پہنچنے تک تالپوروں نے مل کر مکمل خراج جو 20 لاکھ بنتا تھا، دے کر نواب ولی محمد کو آزاد کروایا۔ تاریخ کے صفحات لکھتے ہیں کہ نواب لغاری صاحب انتہائی شیرین زبان اور ٹھنڈی طبیعت کے شائستہ انسان تھے۔ ممکن ہے کہ انہیں جو تکلیف پہنچی تو ان کے دل سے کوئی بد دعا نکلی کہ شاہ شجاع کا واپسی کا سفر خوشگوار ثابت نہیں ہوا۔

واپسی پر شجاع کا وزیر فتح محمد اس سے ناراض ہو گیا اور پھر دوسرے وزیر شیر محمد سے بھی وہ لڑ پڑا۔ شجاع جب ’نملی‘ (کابل سے 16 میل مشرق میں جلال آباد کی طرف) پہنچا تو فتح محمد اور شاہ شجاع کے لشکر میں جنگ ہو گئی۔ منشی عطا محمد لکھتے ہیں کہ ’دونوں کی لڑائی میں شجاع ہار کر بھاگ کھڑا ہوا، اٹک قلعہ والا گھاٹ پار کرکے لاہور کی طرف گیا جہاں رنجیت سنگھ کے پاس جا کر پناہ لی، رنجیت سنگھ نے اس کی خوب آؤ بھگت کی۔

’لاہور کے بعد شاہ شجاع کچھ ماہ کشمیر میں قید رہا۔ یہ بھی اس کے کیے گئے اعمال کی سزا تھی جو اس نے بھگتی۔ کشمیر سے آزاد ہوکر وہ پھر لاہور رنجیت سنگھ کے پاس پہنچا۔ رنجیت سنگھ کو پتا چلا کہ کوہ نور ہیرا شجاع کے پاس ہے تو جیسے شجاع پہنچا اسے قید میں ڈال دیا گیا۔ مگر شاہ شجاع نے فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے وہ یہ ہیرا رنجیت سنگھ کو کسی بھی حالت میں نہیں دے گا۔ اور دوسری طرف رنجیت سنگھ نے بھی ٹھان لی تھی کہ کچھ بھی ہو وہ ہیرا لے کر رہے گا‘۔

’تازہ نوائے معارک‘ کے مصنف تحریر کرتے ہیں کہ ’آخر رنجیت سنگھ نے یہ کیا کہ شاہ شجاع کے شہزادے تیمور جو ابھی بچہ تھا، کو تپتے دنوں میں ایک عمارت کی سیڑھیوں پر چڑھنے اور اترنے کا حکم دیا۔ کچھ وقت کے بعد وہ مرنے جیسا ہوگیا اور رونے اور چیخ و پکار کرنے لگا۔ یہ حال دیکھ کر شاہ شجاع نے مجبواً کوہ نور ہیرا رنجیت سنگھ کے حوالے کر دیا‘۔

اس روداد کے بعد شجاع کا دل لاہور اور رنجیت سنگھ سے بھر گیا۔

تخت سے بے دخل ہونے کے بعد شاہ شجاع پورے 30 برس لاہور، شکارپور، حیدرآباد، خیرپور اور لدھیانے تک سفر کرتا رہا۔ 1818ء میں شاہ شجاع اور اس کا بیٹا رستم ہمیں شکارپور میں نظر آتے ہیں جہاں بغیر تخت کے حاکم نے کیمپ لگایا ہے اور وہاں شاہی باغ میں موسیقی کے سُر فضا میں بکھرتے ہیں اور ناریوں کی نِرت جاری ہے۔

شکارپور شہر پر خوف کا ماحول ہے کہ نہ جانے کب بادشاہوں کی طبیعت کا اونٹ کس طرف کروٹ بدلے اور وہ تماشا بن جائیں۔ بیوپاری اس لیے سورج ڈوبتے ہی دکانیں بند کرکے گھروں کو چلے جاتے ہیں کیونکہ اگر نظروں میں آ گئے تو زیادہ ٹیکس دینے کے احکامات جاری ہوسکتے ہیں۔ حالت یہ تھی کہ نوجوان عورتوں نے گھروں سے نکلنا بند کر دیا تھا۔

شاہ شجاع انہیں راستوں کا مسافر ہے اور ہم بھی اس سے ملتے رہیں گے خاص طور پر 1820ء میں جب وہ خراج لینے کے لیے حیدرآباد تک آ پہنچا تھا۔ تالپوروں کی نرم طبیعت اور حالات کی بے بسی نے ان کے لیے پریشانیوں کا ایک بھنور تخلیق کردیا تھا۔ 1818ء میں سندھ کے امیروں کے آنگن دو اور پریشانیاں آ کر اُتریں۔ پہلی رنجیت سنگھ کی دھمکی اور دوسری کَچھ بھج کی طرف کمپنی سرکار کی بڑھتی دلچسپی۔ لیکن ہم پہلے رنجیت سنگھ کا ذکر کرتے ہیں۔

جب رنجیت سنگھ کے چھوٹی بڑی ریاستوں پر قبضہ کرنے کی خبریں یہاں تک پہنچیں تو تالپور حکمران بڑی خاموشی سے اس منظرنامے کا تجزیہ کرتے رہے۔ وہ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ کمپنی سرکار کا رویہ رنجیت سنگھ سے انتہائی اپنائیت والا ہے۔ امیروں نے مناسب یہ سمجھا کہ رنجیت سنگھ کے ساتھ روابط اچھے ہونے چاہئیں اس لیے انہوں نے اپنے ایلچی کے ہاتھوں بیش بہا سوغاتیں دربار تک بھیجتے تھے جن کے بدلے رنجیت سنگھ بھی سالانہ تحفے تحائف بھیجتا تھا۔

1818ء میں جب کمپنی سرکار نے مرہٹوں کو تیسری اور آخری جنگ میں شکست دی (پہلی اینگلو مرہٹہ جنگ 1775ء سے 1782ء تک، دوسری اینگلو مرہٹہ جنگ 1803ء سے 1805ء تک جبکہ آخری اینگلو مرہٹہ جنگ 1817ء سے 1818ء)۔ مرہٹہ یا مراٹھا سلطنت جو 1674ء سے 1818ء تک قائم رہی، اپنے عروج کے زمانے میں ان کی حکومت ہندوستان کے ایک بہت بڑے حصہ پر رہی۔ مرہٹوں سے جیت کر کمپنی سرکار نے کَچھ کی جانب توجہ دی۔

1816ء میں کمپنی سرکار کی طرف سے بھج میں ریزیڈنسی قائم ہو چکی تھی۔ کمپنی کو یہ موقع وہاں کی خانہ جنگی نے دیا تھا کہ جن میں صلح صفائی کے لیے کمپنی سرکار بڑے جوش و خروش سے ڈرامائی کردار ادا کر رہی تھی۔ یہ سندھ کے امیروں کو بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ کَچھ میں انگریز کوئی کردار ادا کریں۔

یہ خبریں جب کمپنی سرکار تک پہنچیں کہ سندھ کے امیر کَچھ کے معاملات میں انگریزوں سے خوش نہیں ہیں۔ یہ بات جب کمپنی سرکار کے کانوں تک پہنچی تب گورنر جنرل نے 1818ء میں اعلان کیا کہ اب برٹش حکومت کی حدود دریائے سندھ تک ہیں اور کمپنی سرکار نے رنجیت سنگھ کو اس طرح استعمال کیا کہ سندھ حکومت مجبور ہوکر برٹش سرکار سے مدد مانگنے پر مجبور ہو جائے۔

ہم سندھ کے امیروں کو انتہائی پریشانی والی کیفیت میں چھوڑے جا رہے ہیں۔ شام کو حیدرآباد کے قلعے میں امیروں نے ایک بیٹھک بلائی ہے کہ جس پر وہ غور کریں گے کہ رنجیت سنگھ کے نئے روپ سے کیسے نمٹا جائے کیونکہ وہ سندھ کی سرحدوں تک آ پہنچا ہے۔ چلیے ہم جلدی لوٹیں گے حیدرآباد کے اس شاندار پکے قلعہ کے ایوانوں میں اور دیکھتے ہیں تب تک رنجیت سنگھ سے جان چھڑانے کے لیے سندھ کے امیر کونسی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔