سہ فریقی سیریز میں پاکستان کی فتح، کیا قومی ٹیم ایشیا کپ کے لیے تیار ہے؟
سہ فریقی سیریز میں پاکستان کی فتح نے ایشیا کپ سے قبل ٹیم کو یقینی طور پر اعتماد اور نئی قوت بخشی ہے جس کے لیے ٹیم گزشتہ کئی ماہ سے سرگرداں تھی۔
اگرچہ افغانستان اور متحدہ عرب امارات کی ٹیمیں اتنی مضبوط نہیں کہ پاکستان کو شکست دے سکیں اور یہی وجہ تھی کہ اس ٹورنامنٹ کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں تھی لیکن چند روز قبل افغانستان نے جس طرح پاکستان کو شکست دی تھی، اس سے ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال ضرور گردش کررہا تھا کہ کیا افغانستان کی ٹیم پاکستان سے بہتر ہوچکی ہے؟ اور کیا وہ فائنل جیت سکتی ہے؟
ان سوالات کا جواب ہاں ایسا ممکن تھا کیونکہ پاکستان ٹیم اپنے حریف متحدہ عرب امارات (یواے ای) کے خلاف بھی ایک میچ میں پریشان ہوگئی تھی۔ البتہ پاکستانی ٹیم نے وہ میچ تو جیت لیا تھا لیکن یو اے ای ہدف کے کافی قریب پہنچ گئی تھی۔ پاکستان کے پاس تجربہ کار باؤلرز تھے جو اس صورت حال سے نمٹنا جانتے تھے مگر 15ویں درجے کی ٹیم کا اتنا شاندار مقابلہ کرنا سب کو حیران کرگیا۔
افغانستان کے خلاف فائنل میں پاکستان خوش قسمت رہا کیونکہ وہ ٹاس جیت گیا تھا۔ اس سہ فریقی سیریز میں ہدف کو عبور کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں رہا جبکہ فائنل میں بھی افغانستان ایک قابلِ عبور آسان ہدف تک نہیں پہنچ سکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد نواز نے پچ کے مطابق باؤلنگ کی لیکن افغانستان کی بیٹنگ بھی زبوں حالی کا شکار نظر آئی۔
عبدالرحمٰن گرباز پوری سیریز میں ناکام رہے جبکہ ابراہیم زدران نے سیریز میں سب سے زیادہ 194 رنز تو بنائے لیکن فائنل کو وہ یادگار نہ بناسکے۔ افغانستان کی ٹیم صرف ان دو بلے باز پر بھروسہ کرتی ہے، وہ جلدی آؤٹ ہوگئے اور پھر ان کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
پاکستان ٹیم کتنی مضبوط ہے؟
ایشیا کپ ٹورنامنٹ کا آغاز کل سے ہونے والا ہے جبکہ اتوار 14 ستمبر کو پاکستان روایتی حریف بھارت کے خلاف میچ کھیلے گا جو اس ایشیا کپ کی جان ہے۔ اس میچ پر سب ہی کی نظریں لگی ہوئی ہیں لیکن اس سے قبل کیا ہمیں دیکھنا چاہیے کہ پاکستان ٹیم کہاں کھڑی ہے؟ اور کیا وہ اتنی مضبوط ہے کہ بھارتی ٹیم کا مقابلہ کرسکے؟
پاکستان کی بلے بازی سہ فریقی سیریز میں مشکلات کا شکار رہی ہے۔ کارکردگی میں عدم تسلسل کے باعث اوپنرز کسی بھی میچ میں خاص آغاز نہ دے سکے۔
صائم ایوب 5 میچز میں 111 رنز بنا سکے جبکہ دوسرے اوپنر صاحبزادہ فرحان نے 63 رنز بنائے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں پاکستانی اوپنرز مشکلات کا شکار رہے۔
پاکستان کی جانب سے فخر زمان نے سب سے زیادہ 155 رنز بنائے جبکہ کپتان سلمان علی آغا اور محمد نواز نے متعدد بار ٹیم کو سہارا دیا۔ دونوں کی ذمہ دارانہ بیٹنگ قابلِ ذکر رہی۔
محمد حارث اور حسن نواز مکمل طور پر ناکام رہے۔ دونوں کی تکنیکی کمزوریاں اب کھل کر سامنے آچکی ہیں۔ حارث نے جس قدر بدترین کارکردگی دکھائی، اس کے بعد ان کی ٹیم میں جگہ برقرار رہنا اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ ٹیم اقربا پروری کا شکار ہے۔ حارث کو کھلانا شاید کپتان کی مجبوری ہو کیونکہ وہ چیئرمین پی سی بی کی گڈبک میں ہیں اور بابر اعظم پر تنقید کرکے وہ مزید میر جعفر بن چکے ہیں۔ ورنہ ایسی کارکردگی کے کسی بھی کھلاڑی کو سلیکٹرز 10 سال تک گنتی میں بھی نہیں لاتے لیکن حارث کو فارمولا مل گیا ہے کہ بابر کے خلاف بات کرو اور جگہ بناؤ!
صائم ایوب کی فارم بھی تنزلی کا شکار ہے۔ انہیں زبردستی محمد حفیظ بنانے کے چکر میں ان کا اصل ٹیلنٹ برباد کیا جارہا ہے۔ باؤلنگ میں دو چار وکٹ لے کر وہ خود کو آل راؤنڈر سمجھنے لگے ہیں اور موجودہ دور کے حفیظ بھی۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنے اصل کام یعنی بلے بازی سے غافل ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے پہلے انہیں سعید انور بناکر برباد کیا اور اب حفیظ بناکر مزید بربادی کررہے ہیں۔
فخر زمان کی فارم بھی خراب ہے۔ اپنے روایتی شاٹس نہ لگنے پر وہ ٹلوں پر زیادہ جان لگا رہے ہیں جس پر رنز بنتے ہیں نہ باؤلر پر دباؤ البتہ وہ خود پر دباؤ بڑھادیتے ہیں۔ حسن نواز کے بھی بلائنڈ شاٹ نہیں لگ رہے ہیں۔ وہ بیٹنگ کی بنیادی تکنیک سی ناواقف ہیں، اس لیے مسلسل ناکام ہورہے ہیں۔ مڈل آرڈر میں سلمان آغا کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں لیکن ان کا سست انداز زیادہ اثر نہیں رکھتا ہے۔
باؤلنگ میں پاکستانی باؤلرز کو اس سیریز میں کسی تجربہ کار حریف کا سامنا نہیں تھا لیکن جب بھارت اور سری لنکا سے مقابلہ ہوگا تب اصل نتیجہ سامنے آئے گا۔ افغانستان کے خلاف فائنل میں نواز اور ابرار نے اچھی باؤلنگ کا مظاہرہ کیا۔ ان کی اس باؤلنگ پر بھارتی ٹیم فکر مند ہوگی کیونکہ اگر اتوار کی پچ میں اسپن ہوا تو بھارتی بلے بازی ڈگمگا سکتی ہے۔ پاکستان کی فاسٹ باؤلنگ بھی بھارت سے بہتر ہے اور ویرات کوہلی کی غیر موجودگی میں پاکستانی باؤلنگ مزید اچھی کارکردگی دکھا سکتی ہے۔
ایشیا کپ میں پاکستان کے امکانات
پاکستان ٹیم بھارت کے ساتھ گروپ اے میں ہے جہاں دوسری دو کمزور ٹیمیں رکھی گئی ہیں جس کا مقصد واضح ہے کہ براڈکاسٹرز پاکستان اور بھارت کا فائنل دیکھنا چاہتے ہیں۔
ایک گروپ میں ہونے سے دونوں ٹیمیں کوئی ناک آؤٹ میچ نہیں کھیلیں گی۔ البتہ بھارتی ٹیم بہت متوازی اور مضبوط نظر آتی ہے۔ جسپریت بمرا اور شبمن گل کی شمولیت سے تجربہ موجود ہوگا جبکہ رنکو سنگھ اور ابھیشک شرما کی صورت میں خطرناک بلے باز بھی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ کپتان سوریا کمار یادو اور ہارک پاندھیا کی موجودگی ٹیم کو مزید مضبوط بنا رہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں نے آخری ٹی ٹوئنٹی میچ 2021ء میں کھیلا تھا جس میں پاکستان اطمینان سے جیت گیا تھا لیکن اُس ٹیم کے اگر روہت شرما اور کوہلی نہیں موجودہ بھارئی ٹیم کا حصہ نہیں تو اُسی میچ کے فتح گر بابر اعظم اور محمد رضوان بھی عتاب کا شکار ہیں۔ تو دونوں ٹیمیں کسی حد تک نئی بھی ہیں اور زیادہ پُرجوش بھی!
اس میچ سے قبل پاکستان، عمان سے جمعہ کو میچ کھیلے گا جس میں پاکستان بھرپور طاقت دکھا کر اپنی دھاک بٹھا سکتا ہے۔
پاکستان کے کوچ مائیک ہیسن نے ایشیا کپ سے قبل ایک عجیب دعویٰ کیا ہے کہ ان کی کوچنگ میں ٹیم بہت اوپر جا چکی ہے اور جیت کا تناسب زیادہ ہے لیکن وہ بھول گئے کہ وہ بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز سے سیریز ہار چکے ہیں حالانکہ دونوں ٹیمیں کافی عرصے سے نچلے درجہ کی کارکردگی دکھارہی ہیں۔
مائیک کے آنے کے بعد سے ٹیم کی کارکردگی خراب ہورہی ہے مگر پی سی بی کے نئے فارمولے نے انہیں بااعتماد کردیا ہے کہ ہار جیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، اس لیے نتیجے پر فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مائیک ہیسن اب سلیکشن کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں۔ اس لیے وہ بلاشرکت غیرے تمام اختیارات کے مالک ہیں۔
ایشیا کپ کے آغاز کے ساتھ ایک بھرپور اور پُرکشش کرکٹ ٹورنامنٹ شروع ہوجائے گی لیکن یہ امر حیرت انگیز ہے کہ بھارت بنا مزاحمت اس ٹورنامنٹ میں شامل ہورہا ہے۔ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں، وہ نامعلوم نہیں حالانکہ آخری وقت تک اس کی شمولیت پر شکوک و شبہات تھے۔
کیا پاکستان 2021ء کی کارکردگی دوہرا پائے گا؟ اس کا جواب تو اتوار کو ہی مل سکے گا لیکن وقت سے پہلے سب کی نظر میں بھارت فیوریٹ ہے اور جیسا کہ سیانے کہتے ہیں کہ بعض اوقات اس وقت بارش ہوجاتی ہے کہ جب بادلوں کا نام و نشان نہیں ہوتا۔
ایشیا کپ میں پاکستان کی فتح کا امکان تو نہیں لیکن نتیجہ مختلف بھی ہوسکتا ہے کیونکہ میدان میں وہی کامیاب ہوتے ہیں جو آخری دم تک لڑتے ہیں۔
لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔
