حکومت کا وافر مقدار کے باوجود توانائی سیکٹر کو گیس کی فراہمی پر نیا ٹیکس لگانے پر غور
سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) گرمیوں میں بھی بغیر اطلاع دیے قدرتی گیس کی راشننگ جاری رکھے ہوئے ہے، جب کہ ایک تیسرے فریق کو پائپ لائن کی گنجائش دینے کے معاملے پر جاری کھینچا تانی کے درمیان توقع کی جارہی ہے کہ حکومت بجلی کے شعبے کو گیس کی تقسیم پر ’کیپٹو گیس لیوی‘ نافذ کرے گی، تاکہ سرکاری اور نجی شعبے کے گیس سپلائرز کے لیے یکساں مواقع یقینی بنائے جا سکیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان قدرتی گیس اور ایل این جی کی شدید فراہمی کی زیادتی کا شکار ہے، جس کے باعث حکومت کو 170 سے زائد ایل این جی کارگو کی درآمد مؤخر کرنی پڑی ہے، اور ایس این جی پی ایل نے مقامی گیس پیدا کرنے والوں کو اپنی پیداوار بند یا کم کرنے پر مجبور کیا ہے۔
اس سے مقامی پروڈیوسرز، لندن اسٹاک ایکسچینج میں درج سرکاری او جی ڈی سی ایل کو بھاری نقصان ہو رہا ہے، جو نہ صرف ملک کے زرمبادلہ کو کمزور کرتا ہے بلکہ صارفین کو بھی مجبور کرتا ہے کہ وہ دن میں چند گھنٹوں کے لیے ملنے والی گیس پر بھاری فکسڈ چارجز ادا کریں۔
اسی دوران جب سیاسی قیادت آگ بجھانے میں مصروف ہے، مرکز اور ایس این جی پی ایل کے حکام، اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز، کاروباری افراد اور سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ، اپنے اپنے مفادات اور دلائل کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’یکساں مواقع فراہم کرنے‘ کے اقدام کا مقصد
ڈان کے رابطہ کرنے پر کسی بھی فریق، پیٹرولیم ڈویژن، ایس این جی پی ایل انتظامیہ اور نجی اداروں نے ریکارڈ پر بات کرنے کو ترجیح نہیں دی بلکہ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال دی۔
اسی دوران، ایس این جی پی ایل نے مقامی سستی گیس پیدا کرنے والے ذخائر کو بند کرنے یا پیداوار کم کرنے کی ہدایت جاری کر دی تاکہ مہنگی ایل این جی، جو بین الاقوامی معاہدوں کے تحت خریدی گئی ہے، سسٹم میں جذب کی جا سکے، اس وقت 300 ملین مکعب فٹ یومیہ (ایم ایم سی ایف ڈی) سے زائد مقامی گیس کی پیداوار محدود کی جا چکی ہے۔
بغیر اطلاع کے راشننگ
ایس این جی پی ایل نے پیداوار کنندگان کو سپلائی محدود کرنے پر مجبور کرنے کے ساتھ ہی گھریلو اور کمرشل صارفین کے لیے بغیر اطلاع دیے راشننگ شروع کر دی ہے، جس میں صرف ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کے اوقات میں 2 سے 3 گھنٹے کے لیے گیس فراہم کی جاتی ہے۔
یہ اقدام اس حکومتی فیصلے کے بعد آیا ہے جس کے تحت یکم جولائی 2025 سے فکسڈ ماہانہ چارجز کو دگنا کر دیا گیا ہے، نتیجتاً تقریباً 450 روپے کی گیس کے استعمال پر فکسڈ چارجز اور ٹیکس شامل کیے جائیں تو مجموعی بل تقریباً 2 ہزار 500 روپے بنتا ہے۔
پیداواری کٹوتیوں نے مقامی پروڈیوسرز، او جی ڈی سی ایل، جی ایچ پی ایل اور دیگر (جن میں چند نجی شعبے کے بھی شامل ہیں) کے لیے کیش فلو کے مسائل پیدا کر دیے ہیں، جس سے ان کی ملکی اور بین الاقوامی ایکسپلوریشن سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے پروڈیوسر او جی ڈی سی ایل نے اس صورتحال پر کھلے عام افسوس کا اظہار کیا ہے۔
کمپنی نے اپنی بورڈ آف ڈائریکٹرز کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا کہ قادِرپور، نوشپا، چنڈہ، ڈھوک حسین، میلہ، بٹانی، پیرکوہ، توغ، لوٹی فیلڈز اور ٹال سے ایس این جی پی ایل کے سسٹم کی رکاوٹوں کے باعث گیس کی کم خریداری، اور یو پی ایل کی جانب سے اوچ فیلڈز سے کم خریداری کی وجہ سے روزانہ کی پیداوار میں ایک ہزار 148 بیرل خام تیل، 76 ایم ایم سی ایف گیس اور 55 ٹن ایل پی جی کی کمی ہوئی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 31 مارچ 2025 کو ختم ہونے والی تیسری سہ ماہی کے دوران او جی ڈی سی ایل نے 310 ارب 90 کروڑ 70 لاکھ روپے کا سیلز ریونیو حاصل کیا، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 348 ارب 16 کروڑ 40 لاکھ روپے تھا، کمپنی کی فروخت میں کمی بنیادی طور پر پیداوار میں جبری کٹوتی اور خام تیل کی اوسط قیمت میں کمی کے باعث ہوئی۔
جب توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 4 کھرب 60 ارب روپے سے تجاوز کر گیا تو حکومت نے مقامی پروڈیوسرز کو اپنی کچھ گیس تیسرے فریق کو بیچنے کی اجازت دی تاکہ ان کے کیش فلو کو بہتر کیا جا سکے۔
اس انتظام کے تحت کچھ پروڈیوسرز جیسے ایم او ایل-پاکستان اور پیٹرولیم ایکسپلوریشن لمیٹڈ کو اپنی پیداوار، رازیگر اور زہرہ نارتھ فیلڈز اور کچھ دیگر سے، تیسرے فریق کو فروخت کرنے کی اجازت دی گئی۔
تاہم، ایس این جی پی ایل نے رازیگر فیلڈ کے لیے اس انتظام کی مخالفت کی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ اس سے مارکیٹ کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
کمپنی نے نشاندہی کی کہ 791 روپے فی یونٹ کیپٹو لیوی، جو آئی ایم ایف کی ہدایت پر اس کے صنعتی صارفین پر نافذ کی گئی تھی، نجی سپلائرز پر لاگو نہیں ہوتی، جس کے باعث صارفین سستی نجی گیس کی طرف منتقل ہو گئے۔
اس مزاحمت کے باوجود ایس این جی پی ایل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے رازیگر گیس کو تیسرے فریق کو پائپ لائن کی گنجائش دینے کی منظوری دی، بعد میں ایس این جی پی ایل انتظامیہ نے کسی ایسی منظوری سے انکار کیا، مگر ’ڈان‘ کو دستیاب ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کم از کم 11 میں سے 9 بورڈ ممبران نے اس فیصلے پر دستخط کیے تھے۔
اس کھینچا تانی کے جواب میں وزارت قانون نے اب فیصلہ دیا ہے کہ کیپٹو پاور لیوی ایل این جی یا مقامی گیس کے تمام صارفین پر لاگو ہو گی، چاہے وہ سرکاری یا نجی اداروں سے فراہم کی گئی ہو۔
مسئلے کے حل کے لیے وزارت نے قرار دیا کہ اگرچہ پروڈیوسرز سے سپلائرز کو گیس کی فروخت ڈی ریگولیٹڈ ہے، مگر سپلائرز سے کیپٹو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو فروخت ڈی ریگولیٹڈ نہیں ہے۔
وزارت نے طے کیا کہ سیکشن 8(6) کے تحت اور اوگرا آرڈیننس کے سیکشنز 43A اور 43B کے مطابق قیمت کا تعین اوگرا کو کرنا ہو گا، تاکہ 2025 کے لیوی ایکٹ کے تحت لیوی وصول کی جاسکے۔