صوابی میں ’موسیقی کے شو‘ میں شرکت اور چھاپے کے خلاف مزاحمت پر 226 افراد گرفتار
خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں پولیس نے چھاپے کے خلاف مزاحمت کرنے اور ایک ’موسیقی کے شو‘ میں شرکت کے الزام میں 226 افراد کو گرفتار کر لیا۔
صوابی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) اعجاز خان ابازئی نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ’ گرفتار شدگان کی تعداد 226 ہے، جن میں سے کئی کا تعلق ضلع سے باہر کے علاقوں سے ہے، اور سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ انہوں نے شو بند کرانے کے لیے پولیس کے حکم کی مزاحمت کرتے ہوئے تین پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑ دیں۔’
انہوں نے مزید بتایا کہ گرفتار شدگان میں دو خواجہ سرا بھی شامل ہیں۔
اس واقعے کی ایف آئی آر تھانہ صوابی سٹی میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) سعیدالامین کی مدعیت میں درج کی گئی، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 148 (مہلک ہتھیار کے ساتھ بلوہ)، 149 (غیر قانونی اجتماع کا ہر رکن مشترکہ جرم کا مرتکب)، 186 (سرکاری اہلکار کے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنا)، 294 (عوامی مقامات پر فحش حرکات) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) سمیت دیگر قانونی دفعات شامل ہیں۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ضلع ہیڈ کوارٹر کے بازار رض محمد مارکیٹ میں ایک میوزیکل شو جاری تھا اور پولیس اطلاع ملنے پر یہ معلوم کرنے پہنچی کہ کیا ہو رہا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق، ’ موسیقی کے اس پروگرام میں بلند آواز میں لاؤڈ اسپیکروں پر ‘غیراخلاقی’ گانے چلائے جا رہے تھے اور نیم برہنہ ہوکر ‘فحش’ اور ‘غیراخلاقی’ ڈانس کیا جا رہا تھا، اور جب انہیں شو بند کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے پولیس کے حکم کی سخت مزاحمت کی۔’
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ کچھ حاضرین اسلحہ لے کر آئے تھے جنہوں نے تقریب کے دوران ہوائی فائرنگ بھی کی۔ ایف آئی آر کے مطابق بعض حاضرین ویڈیوز بھی بنا رہے تھے اور انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے تھے۔
ایس ایچ او سعیدالامین نے بتایا کہ زیدہ اور تحصیل ٹوپی کے پولیس اسٹیشن سمیت دیگر پولیس چوکیوں کے اہلکاروں کو بلایا گیا اور چھاپہ مارا گیا۔
اتوار کے روز اعلیٰ پولیس افسران نے بتایا تھا کہ صوابی پولیس نے ایک ٹک ٹاکر کو گرفتار کیا ہے جو مبینہ طور پر لڑکیوں کا روپ دھار کر ویڈیوز بنا رہا تھا اور اپنے اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کر رہا تھا تاکہ ’ خاص طور پر نوجوانوں کو گمراہ کر سکے۔’
گزشتہ ماہ لاہور کی ایک عدالت نے خواجہ سرا افراد کے خلاف ایک ’ قابل اعتراض’ نجی پارٹی کے انعقاد کے الزام میں پولیس کی جانب سے درج مقدمہ خارج کر دیا تھا، جس میں انہیں پہلے گرفتار کیا گیا تھا۔