حماس کا امریکا پر قطر میں مذاکرات کاروں پر اسرائیلی حملے میں شریک ہونے کا الزام
حماس نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ قطر میں اس کے مذاکرات کاروں پر اسرائیل کے حملے میں شریک ہے، مزاحمتی تنظیم کی جانب سے قطر میں شہدا کی تدفین کے موقع پر اسرائیل پر غزہ جنگ بندی مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔
عالمی خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی کے مطابق منگل کو قطر پر غیر معمولی اسرائیلی حملے نے ایک ایسے خطے کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جو طویل عرصے سے تنازعات سے محفوظ سمجھا جاتا تھا۔
حماس کے عہدیدار فوزی برہوم نے ایک ٹی وی بیان میں کہا کہ’ یہ جرم … پورے مذاکراتی عمل کا قتل اور قطر و مصر میں ہمارے ثالثی بھائیوں کے کردار کو دانستہ نشانہ بنانا تھا۔’
دوحہ میں اس مسجد کے اطراف میں سخت سیکیورٹی تھی، جہاں اسرائیلی حملے کے شہدا کی نماز جنازہ ادا کی گئی، نماز جنازہ میں قطر کے حکمران بھی شریک ہوئے۔
قطر کے ٹی وی کی براہِ راست فوٹیج میں دکھایا گیا کہ ایک تابوت جس پر قطری پرچم اور پانچ تابوت جن پر فلسطینی پرچم تھے، مسجد میں لائے گئے۔
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے فوجی اور شہری لباس میں موجود سوگواروں کے ساتھ نماز جنازہ ادا کی۔
وزارت داخلہ کے مطابق ان کی تدفین شیخ محمد بن عبدالوہاب مسجد میں جنازے کے بعد میسائمر قبرستان میں کی جائے گی، حکام نے مسجد تک رسائی کی سڑکوں پر چیک پوسٹیں قائم کر کے سیکیورٹی مزید سخت کر دی۔
فوزی برہوم نے الزام لگایا کہ امریکا اسرائیلی حملے میں ’ مکمل طور پر ملوث’ ہے۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ٹرمپ نے اسرائیل کے اس فوجی اقدام سے اتفاق نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ انہیں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور جیسے ہی خبر ملی تو انہوں نے اپنے ایلچی اسٹیو وٹکوف کو فوری طور پر قطر کو خبردار کرنے کا کہا، لیکن اس وقت تک حملہ شروع ہو چکا تھا۔
ازسرنو جائزہ
اسرائیل نے کہا کہ اس نے حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا ہے، لیکن گروپ نے کہا کہ اس کے اعلیٰ عہدیدار محفوظ ہیں۔
حماس کے مطابق اس کے پانچ ارکان شہید ہوئے، جن میں اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ کا بیٹا حمام، ان کے دفتر کے ڈائریکٹر جہاد لباد اور باڈی گارڈ احمد مملوک، عبداللہ عبدالوحد اور مؤمن حسون شامل ہیں، ایک قطری لانس کارپورل بدر سعد محمد الحمیدی الدوسری بھی حملے میں شہید ہوئے۔
فوزی برہوم نے کہا کہ الحیہ کی اہلیہ، ان کے شہید بیٹے کی بیوہ اور ان کے پوتے/پوتیاں اس کمپاؤنڈ پر حملے میں زخمی ہوئیں جہاں وہ رہتے تھے۔
بدھ کو سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا کہ وہ الحیہ کی حالت کی تصدیق نہیں کر سکتے، حماس کے چیف مذاکرات کار کو جنازے کی ویڈیو میں بھی نہیں دیکھا گیا۔
حماس کے ٹیلیگرام چینل پر شیئر کی گئی تصاویر میں سینئر رہنما اسامہ حمدان اور پولیٹیکل بیورو کے رکن عزت الرشق کو تدفین میں شریک دکھایا گیا، گروپ کی ایک پوسٹ کے مطابق کئی حماس ارکان جنازے میں موجود تھے۔
شیخ محمد نے کہا کہ اسرائیلی حملے نے غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کے لیے کسی بھی امید کو ختم کر دیا ہے اور قطر ’ ہر چیز’ کا ازسرنو جائزہ لے رہا ہے جو جنگ بندی مذاکرات میں اس کے ثالثی کردار سے متعلق ہے۔
دوحہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان کئی دور کے بالواسطہ مذاکرات ہو چکے ہیں۔ قطر نے 2012 میں امریکا کی منظوری سے حماس کو دوحہ میں ایک سیاسی دفتر قائم کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ اس گروپ کے ساتھ رابطے کا چینل قائم رہے۔
شیخ محمد نے کہا کہ وہ اس حملے کے خلاف ایک اجتماعی علاقائی ردعمل کی امید رکھتے ہیں اور یہ کہ دوحہ میں ایک عرب-اسلامی سربراہی اجلاس منعقد کیا جائے گا تاکہ لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔
حملے پر خلیجی پڑوسیوں کی جانب سے سخت مذمت اور یکجہتی کا اظہار کیا گیا ہے، متحدہ عرب امارات نے کہا کہ ’ خلیجی تعاون کونسل کے کسی رکن ملک پر کوئی بھی جارحیت خلیجی اجتماعی سلامتی کے ڈھانچے پر حملہ ہے۔’
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ان حملوں کی مذمت کی لیکن اپنے بیان میں اسرائیل کا نام نہیں لیا۔
برطانیہ اور فرانس کے تیار کردہ بیان میں کہا گیا کہ’ کونسل کے ارکان نے کشیدگی کم کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا، انہوں نے قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔’
بیان میں کہا گیا کہ’ کونسل کے ارکان نے زور دیا کہ یرغمالیوں کی رہائی، بشمول وہ لوگ جنہیں حماس نے قتل کیا، اور غزہ میں جنگ و مصائب کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح رہنی چاہیے۔’