پاکستان

ظاہر جعفر کی سزا کیخلاف نظرثانی اپیل پر سماعت جسٹس باقر نجفی کے اضافی نوٹ تک ملتوی

جسٹس علی باقر نجفی کا اضافی نوٹ ابھی آنا باقی ہے، ہو سکتا ہے آپ کو اضافی نوٹ کا کوئی فائدہ مل جائے، اضافی نوٹ آنے تک سماعت ملتوی کر دیتے ہیں، جسٹس ہاشم کاکڑ کا ملزم کے نئے وکیل سے مکالمہ

سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف نظر ثانی درخواست پر سماعت جسٹس علی باقر نجفی کے اضافی نوٹ آنے تک ملتوی کر دی۔

سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف نظر ثانی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت ظاہر جعفر کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ پہلے تو سلمان صفدر وکیل تھے، نظر ثانی میں کیا وکیل تبدیل ہو سکتا ہے؟

وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ قانون تبدیل ہو گیا ہے، نظرثانی میں اب وکیل تبدیل ہو سکتا ہے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون کسی کے لیے تبدیل ہوا یا کسی اصول پر تبدیل ہوا ہے؟ اس کیس میں فیصلہ میں نے لکھا ہے، جسٹس علی باقر نجفی کا اضافی نوٹ ابھی آنا باقی ہے، ہو سکتا ہے آپ کو اضافی نوٹ کا کوئی فائدہ مل جائے، اضافی نوٹ آنے تک سماعت ملتوی کر دیتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے ظاہر جعفر کی نظرثانی درخواست پر سماعت تین ہفتوں تک کیلئے ملتوی کر دی۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ سابق سفارت کار شوکت مقدم کی صاحبزادی 27 سالہ نور مقدم کو 20 جولائی 2021 کو دارالحکومت کے پوش علاقے سیکٹر ایف- 7/4 میں ایک گھر میں قتل کیا گیا تھا، اسی روز ظاہر جعفر کے خلاف واقعے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے جائے وقوع سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

واقعے کا مقدمہ مقتولہ کے والد کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 (منصوبہ بندی کے تحت قتل) کے تحت درج کیا گیا تھا۔

عدالت نے 14 اکتوبر کو ظاہر جعفر سمیت مقدمے میں نامزد دیگر 11 افراد پر فرد جرم عائد کی تھی۔

ملزمان میں ظاہر جعفر کے والدین، ان کے تین ملازمین افتخار (چوکیدار)، جان محمد (باغبان) اور جمیل (خانسامہ)، تھیراپی ورکس کے سی ای او طاہر ظہور اور ملازمین امجد، دلیپ کمار، عبدالحق، وامق اور ثمر عباس شامل تھے۔

قتل کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت 20 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی اور ٹرائل 4 ماہ 8 روز جاری رہا تھا، جس کے دوران 19 ملزمان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

اس دوران ظاہر جعفر نے خود کو ذہنی بیمار بھی ثابت کرنے کی کوشش کی تاہم میڈیکل ٹیسٹ میں اسے مکمل فٹ قرار دیا گیا تھا۔

24 فروری 2022 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے متعلق کیس میں ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی تھی۔

عدالت نے مختصر فیصلے میں ظاہر جعفر کو قتل عمد کے سلسلے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی تھی اور نور مقدم کے ورثا کو 5 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

فیصلے میں بتایا گیا تھا کہ ملزم کی سزائے موت کی توثیق اسلام آباد ہائی کورٹ کرے گی۔

بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم کے بہیمانہ قتل سے متعلق کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے ظاہر جعفر کو سزائے موت سنانے کا حکم برقرار رکھتے ہوئے سزا کے خلاف اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ 21 دسمبر 2022 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا اور چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے فیصلہ سنایا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر تے ہوئے شریک مجرمان محمد افتخار اور جان محمد کی سزا کے خلاف اپیلیں بھی خارج کر دی تھیں جنہیں ٹرائل کورٹ نے 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی ریپ کے جرم میں 25 سال قید کی سزا بھی سزائے موت میں تبدیل کردی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کو 2 مرتبہ سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔

بعدازاں رواں سال 20 مئی کو سپریم کورٹ نے ملزم ظاہر جعفر کی اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔