پاکستان

اسلام آباد: ملک ریاض اور ان کے بیٹے کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد نصرمن اللہ بلوچ نے مزید کارروائی 30 ستمبر تک ملتوی کر دی، دونوں مقدمات منی لانڈرنگ سے متعلق ہیں، رپورٹ

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نصرمن اللہ بلوچ نے بحریہ ٹاؤن کے بانی ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض ملک کو 2 مقدمات میں اشتہاری قرار دینے کے لیے کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ مقدمات ہاؤسنگ جائنٹ کے فنڈز کو مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک منتقل کرنے یعنی منی لانڈرنگ سے متعلق ہیں۔

ہفتے کے روز سماعت کے دوران عدالت نے مزید کارروائی 30 ستمبر تک ملتوی کر دی، جب کہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے کو ان مقدمات میں باضابطہ طور پر مفرور قرار دینے کی کارروائی آگے بڑھائی۔

گزشتہ ہفتے اسی عدالت نے دیگر 3 ملزمان کو چالان کی نقول فراہم کی تھیں، جن میں ملک ریاض کے پرسنل اسٹاف آفیسر کرنل (ر) خلیل الرحمٰن، مشتاق اور عمران شامل ہیں۔

عدالتی کارروائی کے مطابق، خلیل الرحمٰن نے چالان ذاتی طور پر وصول کیا، مشتاق عدالت میں حاضر ہوئے جب کہ عمران کی حاضری ویڈیو لنک کے ذریعے لگائی گئی، توقع ہے کہ مشتاق اور عمران آئندہ سماعت میں ذاتی طور پر پیش ہوں گے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے منی لانڈرنگ ونگ نے یہ مقدمہ درج کیا، جس میں الزام ہے کہ ملزمان نے غیر قانونی طور پر بڑی رقوم بیرونِ ملک منتقل کیں، تاکہ ملک ریاض کے دبئی پراپرٹی منصوبے کو فنڈ کیا جا سکے۔

عدالت کی کارروائی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب ملک ریاض کو بڑھتی ہوئی قانونی مشکلات کا سامنا ہے۔

گزشتہ ماہ وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے انکشاف کیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیموں نے ملک ریاض اور ان کی کمپنی کی جانب سے بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے ناقابلِ تردید شواہد حاصل کر لیے ہیں۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ایف آئی اے نے راولپنڈی کے سفاری ہسپتال پر چھاپہ مارا، جو مبینہ طور پر نقدی اور ریکارڈ چھپانے کے لیے فرنٹ آفس کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔

وزیر کے مطابق اسپتال کی ایمبولینسوں کے ذریعے رقم اور دستاویزات منتقل کی جاتی تھیں تاکہ شک نہ ہو۔

وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ چھاپے کے دوران ایک ارب 12 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کے شواہد سامنے آئے، جب کہ تفتیش کاروں کو توقع ہے کہ مزید رقوم کا سراغ بھی ملے گا۔

عطا اللہ تارڑ نے مزید الزام لگایا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے چیف فنانشل آفیسر اور فنانس ڈائریکٹر حوالہ اور ہنڈی آپریٹرز سے جڑے ہوئے ہیں، جو بیرونِ ملک رقوم بھجوانے میں ملوث تھے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ چھاپے کے دوران بحریہ ٹاؤن کے عملے نے دستاویزات تلف کرنے کی کوشش کی، مگر تفتیش کار زیادہ تر ریکارڈ ضبط کرنے میں کامیاب رہے۔

وفاقی وزیر نے وضاحت کی تھی کہ حکومت کی تحقیقات صرف ملک ریاض، ان کے خاندان اور کمپنی کے عہدیداران پر مرکوز ہیں، بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں پر نہیں۔