دنیا

’اسرائیلی ریاست‘ نے غزہ میں نسل کشی کی، اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی تصدیق

وزیر اعظم نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور صدر اسحٰق ہرزوگ ذمہ دار قرار، اسرائیلی حکام اور فورسز فلسطینیوں کو مکمل یا جزوی تباہ کرنا چاہتی ہیں، سربراہ یو این کمیشن ناوی پلے

اقوام متحدہ (یو این) کے تحقیقاتی کمیشن کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے، یو این تحقیقاتی کمیشن کی نئی رپورٹ تقریباً 2 سال کی جنگ کے بعد ایک سنگِ میل لمحہ ہے۔

قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ’انڈیپنڈنٹ انٹرنیشنل کمیشن آف انکوائری آن دی اوکیوپائیڈ فلسطینی ٹیریٹری‘ کی سربراہ ناوی پلے نے منگل کو الجزیرہ کو بتایا کہ اس کے نتائج اسرائیلی رہنماؤں وزیر اعظم نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور صدر اسحٰق ہرزوگ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم نے صدر، وزیر اعظم اور سابق وزیر دفاع کی شناخت ان کے بیانات اور اُن احکامات کی بنیاد پر کی ہے جو انہوں نے دیے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چوں کہ یہ تینوں افراد ریاست کے نمائندے تھے، قانون کے تحت ریاست کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ یہ اسرائیل کی ریاست ہے جس نے نسل کشی کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کمیشن نے پایا کہ اسرائیلی حکام کے بیانات کے ساتھ ساتھ حالاتی شواہد بھی ان کے نسل کشی کے ارادے کے نتیجے تک پہنچنے کا باعث بنے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ اسرائیلی حکام اور سیکیورٹی فورسز کا یہ نسل کشی کا ارادہ ہے کہ وہ غزہ پٹی میں فلسطینیوں کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیں۔

تاہم، اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے تحقیق کے نتائج کو ’جعلی‘ قرار دیا اور ’ایکس‘ پر پوسٹ میں الزام لگایا کہ رپورٹ کے مصنفین ’حماس کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں‘۔

وزارت نے کہا کہ یہ رپورٹ مکمل طور پر حماس کے جھوٹ پر مبنی ہے، جو دوسروں کے ذریعے دھو کر دہرا دیے گئے ہیں، اسرائیل اس جھوٹی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے اور اس تحقیقاتی کمیشن کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل نمائندے ڈینیئل میرون نے بھی تحقیق کے نتائج کی مذمت کی اور اسے شرمناک، جعلی اور بہتان آمیز تقریر قرار دیا۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اسرائیل پر غزہ میں نسل کشی کا باضابطہ الزام عائد کیا گیا ہے۔

2023 میں، جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ غزہ میں اس کا طرزِ عمل نسل کشی کے مترادف ہے، یہ مقدمہ اب بھی جاری ہے۔

اپریل میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پایا کہ اسرائیل غزہ میں ’براہِ راست نشر ہونے والی نسل کشی‘ کر رہا ہے اور اس کا مخصوص ارادہ فلسطینیوں کو ختم کرنا ہے۔

جان بوجھ کر قتل

رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوجیوں نے وسیع اثر رکھنے والے ہتھیاروں کے ذریعے غزہ میں عام شہریوں کو جان بوجھ کر قتل کیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ لہٰذا کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ اسرائیلی حکام نے فلسطینی شہریوں کو قتل کر کے غزہ پٹی میں انسانیت کے خلاف ’نسل کشی‘ کا جرم کیا ہے، اگرچہ متاثرین کی تعداد نسل کشی ثابت کرنے کے لیے لازمی شرط نہیں، کمیشن نوٹ کرتا ہے کہ متاثرین کی تعداد نسل کشی کے ارادے کو ثابت کرنے کے لیے زیرِ غور لائی جا سکتی ہے۔

اسرائیل کی غزہ میں جنگ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہوئی، جب حماس نے جنوبی اسرائیل میں حملے کیے جن میں ایک ہزار 139 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنایا گیا، جن میں سے 48 اب بھی غزہ میں ہیں۔

اس کے بعد سے اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 64 ہزار 871 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 64 ہزار 610 زخمی ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سفارشات

اقوام متحدہ کی رپورٹ نے سفارش کی کہ اسرائیل مکمل اور مستقل جنگ بندی نافذ کرے، اقوام متحدہ کے تمام گروپوں کو غزہ میں بغیر رکاوٹ رسائی دے، اپنی بھوک مٹانے کی پالیسی ختم کرے اور امریکا و اسرائیل کی حمایت یافتہ غزہ ہیومینٹرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے امدادی تقسیم کے نظام کو ختم کرے، جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کمیشن کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بشمول مشرقی یروشلم، تک رسائی دی جائے تاکہ وہ اپنی تحقیقات جاری رکھ سکے۔

جس دن اقوام متحدہ کی تحقیق نے اپنے نتائج جاری کیے، اسرائیل کے غزہ پر حملے مزید تیز ہو گئے۔

وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے منگل کی صبح اعلان کیا کہ یہ علاقہ ’آگ میں جل رہا ہے‘ کیوں کہ فوج نے غزہ شہر پر زمینی یلغار شروع کر دی ہے۔

طبی ذرائع نے الجزیرہ عربی کو بتایا کہ صبح سے اب تک غزہ بھر میں کم از کم 48 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے 37 صرف غزہ شہر میں مارے گئے ہیں۔