کاروبار

مجوزہ قانون سرمایہ کاری میں رکاوٹ اور کاروبار کو جرم بنانے کا سبب بن سکتا ہے، آٹو انڈسٹری

گاڑیوں کی واپسی اور وارنٹی تنازعات جیسے معمول کے معاملات کو قابلِ گرفتاری جرائم قرار دیکر مینوفیکچررز کو مجرموں کے برابر کھڑا کر دیا گیا ہے، ماہرین

ملک کی آٹو انڈسٹری نے مجوزہ موٹر وہیکلز انڈسٹری ڈیولپمنٹ ایکٹ 2025 پر سخت اعتراضات اٹھاتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ قانون ترقی کو فروغ دینے کے بجائے سرمایہ کاری کو روکنے، لاگت بڑھانے اور جائز کاروباری سرگرمیوں کو بھی مجرمانہ قرار دینے کا باعث بن سکتا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق انڈسٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسودہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر تیار کیا گیا اور اس میں بیوروکریٹک اداروں خصوصاً انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے ہیں، ان کے مطابق مبہم اور سزا نما دفعات اس وقت سرمایہ کاروں کو بددل کر سکتی ہیں جب حکومت استحکام اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی خواہاں ہے۔

گاڑیوں کی واپسی اور وارنٹی تنازعات جیسے معمول کے معاملات کو قابلِ گرفتاری جرائم قرار دینے کو سب سے زیادہ متنازع نکات قرار دیا گیا ہے، جنہیں ایف آئی اے نافذ کرے گی، آٹو میکرز کے مطابق اس سے مینوفیکچررز کو مجرموں کے برابر کھڑا کر دیا گیا ہے اور اعتماد مجروح ہوگا۔

پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے ڈائریکٹر جنرل عبد الواحد خان نے 8 ستمبر کو وزارت صنعت کو لکھے خط میں کہا کہ ’مسودہ مینوفیکچرنگ اور تجارتی سرگرمیوں کو بلا جواز مجرمانہ بناتا ہے‘ اور ایف آئی اے کی شمولیت انتہائی تشویشناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون صارفین کے تحفظ کو آٹو پالیسی 2021 سے آگے نہیں بڑھاتا بلکہ منظم صنعت کے لیے مشکلات کھڑی کرے گا جبکہ غیر منظم سیکٹر کو بے لگام چھوڑ دے گا۔

انڈسٹری نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں پہلے ہی متعدد ریگولیٹری فریم ورک موجود ہیں جن میں آٹو پالیسی 26-2021، ایس آر او 656، مسابقتی قوانین، صارفین کے تحفظ کے قوانین اور امپورٹ ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ شامل ہیں، مقامی اسمبلرز اقوام متحدہ کے یورپی اقتصادی کمیشن کے 17 حفاظتی معیارات پر عمل کر رہے ہیں اور مزید کو اپنانے کی کوشش میں ہیں، وارنٹی، بعد از فروخت سروس اور ریکال پہلے سے ہی معمول کا حصہ ہیں۔

خاص تشویش ای ڈی بی کو دیے گئے صوابدیدی اختیارات پر ہے، ایس ای سی پی یا سی سی پی جیسے قانونی ریگولیٹرز کے برعکس، ای ڈی بی کے پاس نہ تو قانون سازی کی بنیاد ہے، نہ احتساب کا نظام اور نہ تکنیکی صلاحیت، اس کے باوجود مسودہ اسے ریکال، ٹائپ اپروول، مرمت اور یہاں تک کہ بغیر وارنٹ کے جگہوں میں داخل ہونے کے اختیارات دیتا ہے۔

عبدالواحد خان نے مؤقف اپنایا کہ ای ڈی بی کے پاس نہ تو ٹائپ اپروول دینے کی سہولت ہے اور نہ ہزاروں ورکشاپس کی نگرانی کی صلاحیت، ان کے مطابق یہ دفعات ’بہت سے زیادہ سے زیادہ غیر عملی ہیں اور کم سے کم غلط استعمال کے امکانات رکھتی ہیں‘۔

صارفین کے لیے بھی یہ قانون الٹا نقصان دہ ہو سکتا ہے، آٹو میکرز نے خبردار کیا کہ اضافی لاگت اور کاغذی کارروائی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا دیں گی، جبکہ ’اہم خطرہ‘ یا ’غیر منصفانہ معاہدے کی شرائط‘ جیسے مبہم الفاظ من مانی کارروائی کے مواقع فراہم کریں گے۔

انڈسٹری کا کہنا ہے کہ وہ ضابطہ بندی کی مخالف نہیں بلکہ ٹارگٹڈ گائیڈ لائنز اور موجودہ قوانین کے سخت نفاذ کی حامی ہے، اسٹیک ہولڈرز کا مطالبہ ہے کہ مینوفیکچررز، صوبائی حکومتوں اور صارفین سے مشاورت کے ذریعے خلا کو پر کیا جائے تاکہ ترقی متاثر نہ ہو۔

عبدالواحد خان نے سیکشن 5 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی حادثہ لاپروا یا غیر تربیت یافتہ ڈرائیور کی وجہ سے ہو جو سیٹ بیلٹ جیسے بنیادی اصول نظر انداز کرے تو اس کا ذمہ دار مینوفیکچرر کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، انہوں نے زور دیا کہ اس سیکشن کو انڈسٹری سے مشاورت کے بعد دوبارہ ترتیب دیا جائے۔

اسی طرح سیکشن 9 میں کنفرمیٹی سرٹیفکیٹ کی شرط رکھی گئی ہے، حالانکہ اسمبلرز پہلے ہی سی او سی جاری کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ گاڑی خریدنے کے بعد کیے جانے والے کسی بھی ردوبدل جیسے ٹائروں کی تبدیلی یا باڈی آلٹر یشن کی ذمہ داری اسمبلر پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

پاما نے مرمت کی سروسز کو ای ڈی بی کے دائرہ اختیار میں لانے کو بھی مسترد کیا ہے کیونکہ اس کے پاس ہزاروں ورکشاپس کی ریگولیشن کی صلاحیت نہیں، سیکشن 15 کے تحت ای ڈی بی عملے کو غیر واضح طور پر ایکٹ کے اختیارات دینے کو بھی قانونی طور پر مشکوک قرار دیا گیا ہے۔

عبدالواحد خان نے حکومت پر زور دیا کہ مسودے کو فی الحال روک کر اس کے انتظامی پہلوؤں کی ’مناسب جانچ‘ کی جائے اور صنعتی سرگرمیوں کو مجرمانہ بننے والی دفعات کو نکالا جائے ۔