حالیہ سیلاب سے ملک بھر میں 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے، چیئرمین این ڈی ایم اے
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے بتایا کہ حالیہ سیلاب سے ملک بھر میں 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس چیئرپرسن شیری رحمٰن کی زیر صدارت ہوا، جس میں ملک بھر میں حالیہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی صورتحال اور ان کے لیے امدادی اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے بریفنگ دی کہ سیلاب متاثرین کی تعداد 30 لاکھ تک جاپہنچی ہے، جن میں بڑی تعداد پنجاب اور سندھ کے متاثرہ اضلاع کی ہے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ لاکھوں افراد اب بھی خیمہ بستیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جہاں پانی، بجلی اور صحت جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں۔
چیئرمین این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ ملک میں 50 سے زائد گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور بعض مقامات پر گلاف واقعات (یعنی برفانی جھیل کے پھٹنے کا خطرہ) رہائشی علاقوں کے قریب رونما ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ کا کام صرف یہ بتانا ہے کہ کب اور کہاں بارش ہوگی، مگر مؤثر ارلی وارننگ سسٹمز کا فقدان اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
شیری رحمٰن نے اجلاس میں کہا کہ ابتدائی وارننگ سسٹمز پر صرف 15 فیصد خرچ کیا گیا جب کہ گلاف منصوبے کے بجٹ کا 30 فیصد انتظامی اخراجات پر استعمال ہوا ہے۔
انہوں نے گلاف ٹو سائٹس پر یو این ڈی پی اور وزارت ماحولیات کی کارکردگی پر سخت تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ متاثرہ علاقوں کے لیے عوامی سماعتیں کرائی جائیں اور حساس وادیوں کی فوری نقشہ بندی کی جائے۔
ان کے مطابق گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کی 24 وادیاں شدید خطرے سے دوچار ہیں اور 36 مقامات پر عملی اقدامات کا فوری طور پر جائزہ لینا ضروری ہے۔
سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی نے اعتراف کیا کہ بعض مقامات پر وارننگ ٹاور ہی نصب نہیں تھے اور جی بی ڈی ایم اے کو بروقت معلومات نہیں پہنچ سکیں۔
کمیٹی نے گلاف ٹو منصوبے کی سست روی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2017 سے شروع ہونے والے اس منصوبے کی زیادہ تر سائٹس اب تک آپریشنل نہیں ہو سکیں۔
چیئرپرسن شیری رحمٰن نے حکومت پر زور دیا کہ 2022 کی طرز پر متاثرہ خاندانوں کو فوری طور پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے ذریعے مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ ان کی مشکلات کم کی جا سکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ منی بجٹ پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عالمی امداد کو فعال بنایا جائے اور متاثرین کو شفاف انداز میں ریلیف دیا جائے۔