پاکستان پانی کے ریکارڈ ذخائر کے ساتھ ربیع سیزن کا آغاز کرے گا
پاکستان کئی برس بعد رواں سال ربیع کے سیزن کا آغاز ایک کروڑ 30 لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی کے وافر ذخیرے کے ساتھ کرے گا، جس کے نتیجے میں سیلاب کے باعث ہونے والے زرعی نقصانات کو جزوی طور پر پورا کرنے میں مدد مل سکے گی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ ہمیں کئی سال بعد ربیع کے سیزن میں پانی کی صورتحال معمول کے مطابق رہنے کی امید ہے، کمی اگر ہوئی تو وہ نہ صرف کم بلکہ قابلِ برداشت اور سنبھالنے کے قابل ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کئی برس بعد اگلے خریف سیزن میں بھی مناسب ذخیرہ منتقل ہونے کے بارے میں پرامید ہیں۔
گزشتہ ماہ تربیلا ڈیم نے اپنی زیادہ سے زیادہ گنجائش 1550 فٹ تک رسائی حاصل کر لی تھی اور تاحال وہیں برقرار ہے، جبکہ منگلا ڈیم اتوار کی رات کو 1239.6 فٹ پر موجود تھا، جو اس کی زیادہ سے زیادہ سطح 1,242 فٹ سے کچھ کم ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پورے خریف سیزن میں دریائے جہلم کا بہاؤ کم رہا۔
اتوار کی شب منگلا میں ذخیرہ 7.1 ملین ایکڑ فٹ رپورٹ ہوا، جو اس کی کل گنجائش 7.277 ملین ایکڑ فٹ کے قریب ہے، تاہم حکام زیادہ پرامید نہیں تھے کہ منگلا اپنی گنجائش تک بھر سکے گا کیونکہ فی الحال صرف 18 ہزار 800 کیوسک پانی آرہا ہے، جس میں سے تقریباً نصف (9 ہزار کیوسک) اپر جہلم کینال میں پینے کے پانی کی ضروریات کے لیے چھوڑا جا رہا ہے، منگلا کو اپنی زیادہ سے زیادہ سطح تک پہنچنے کے لیے مزید ایک لاکھ کیوسک پانی درکار ہے جو باقی 9 دنوں میں ممکن نظر نہیں آتا۔
گزشتہ برس 2023 کے اختتام پر منگلا کی سطح 1233.25 فٹ رہی جبکہ 2024 میں 1224 فٹ ریکارڈ ہوئی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کا سب سے بڑا ذخیرہ گزشتہ برس صرف 5.9 ملین ایکڑ فٹ تک جا سکا تھا، جبکہ اس سال یہ پہلے ہی 7.1 ملین ایکڑ فٹ سے تجاوز کر گیا ہے۔
ادھر تربیلا ڈیم 2023 میں 1548 فٹ اور 2024 میں 1549 فٹ پر پہنچا، جبکہ اس سال اس نے 1550 فٹ کی مکمل سطح حاصل کرلی ہے، چشمہ بیراج نے بھی اس سال اپنی زیادہ سے زیادہ سطح 649 فٹ تک رسائی حاصل کی، جو 2023 میں 645 فٹ اور 2024 میں 646 فٹ تھی۔
اس طرح کُل ذخیرہ پہلے ہی ایک کروڑ 31 لاکھ ایکڑ فٹ سے تجاوز کر چکا ہے جو مجموعی گنجائش ایک کروڑ 33 لاکھ ایکڑ فٹ کا تقریباً 99 فیصد ہے، پچھلے سال یہ ذخیرہ ایک کروڑ 13 لاکھ ایکڑ فٹ تک پہنچا تھا۔
فی الحال، دریائے سندھ میں کوٹری بیراج اور دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر درمیانے درجے کے سیلاب کے سوا تمام دریا معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں۔
سیلاب کے بعد آبپاشی نظام میں اب بھی خاطر خواہ پانی موجود ہونے کی وجہ سے سندھ طاس نظام اتھارٹی (ارسا) نے اپنی تکنیکی اور مشاورتی کمیٹیوں کے اجلاس ابھی طلب نہیں کیے، کیونکہ صوبوں نے پانی کے اخراج کے لیے کوئی نئی درخواست نہیں دی۔
عام طور پر یہ کمیٹیاں ستمبر کے آخری ہفتے میں اجلاس منعقد کرتی ہیں جب صوبے ربیع کے ابتدائی 10 دنوں کے لیے پانی کا مطالبہ کرتے ہیں، تاہم حکام نے خبردار کیا ہے کہ پنجاب کے میدانوں میں طویل عرصے تک کھڑے رہنے والے سیلابی پانی کی وجہ سے کھیتوں میں ریت کے بھاری ذخائر جمع ہو گئے ہیں، جو عام طور پر زرخیز مٹی کے بجائے نقصان دہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ زمینوں کی حالت کا اندازہ لگانے کے لیے پانی کے اترنے کا انتظار کرنا ہوگا۔
ارسا کی تکنیکی اور مشاورتی کمیٹیوں کے اجلاس تب بلائے جائیں گے جب سیلابی پانی اتر جائے گا، ایک اہلکار نے بتایا کہ عام طور پر سندھ صوبہ ربیع کی فصلوں کے لیے پانی کی درخواست دیتا ہے لیکن اس سال ایسا نہیں ہوا کیونکہ وہ اب بھی سیلابی صورتحال سے دوچار ہے۔
رواں خریف سیزن میں (یکم اپریل سے) اب تک تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سمندر میں بہہ چکا ہے جو تربیلا اور منگلا کے مجموعی ذخائر کی دوگنی گنجائش کے برابر ہے۔
1991 کے پانی کے معاہدے کے تحت ربیع کی فصلوں کے لیے تقریباً 3 کروڑ 70 لاکھ تا 3 کروڑ 80 لاکھ ملین ایکڑ فٹ پانی درکار ہوتا ہے، خریف سے منتقل شدہ ذخیرے کے ساتھ ربیع کے دوران پانی کی دستیابی ساڑھے 3 کروڑ تا 3 کروڑ 60 لاکھ ایکڑ فٹ کے قریب رہنے کی توقع ہے، جس میں آئندہ 6 ماہ کے دریا کے بہاؤ شامل ہوں گے۔
1991 کا معاہدہ ارسا کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ملک میں پانی کی دستیابی کا تعین کرے اور صوبوں کو ان کے حصے کے مطابق پانی مختص کرے، ربیع کا سیزن یکم اکتوبر سے 31 مارچ تک جاری رہتا ہے، جس میں سب سے بڑی فصل گندم ہے، دیگر ربیع کی فصلوں میں چنا، مسور، تمباکو، سرسوں، جو اور رائی شامل ہیں۔