نقطہ نظر

بھارت سے ایک اور شکست، ’پاکستان اب دوسرے درجے کی ٹیم بن کر رہ گئی ہے‘

جب دنیا کی بہترین ٹیمیں مخالف کے خلاف پوری اننگز میں جارحانہ بلے بازی کررہی ہیں تو ایسے میں یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کیوں پاکستان اب تک پرانی طرز کی کرکٹ کھیل رہا ہے۔

ایک دوسرے پر سیاسی کیچڑ اچھالنے کے ایک ہفتے بعد پاکستان اور بھارت کے کھلاڑی گزشتہ رات ایک بار پھر اپنی روایتی مگر غیرمساوی دشمنی نبھانے کے لیے میدان میں اترے۔

پاکستان کے لیے جیت کا واحد موقع ایک ایسا ہدف کھڑا کرنا تھا جو بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن پر دباؤ ڈال سکے۔ انہوں نے اپنی اننگز کے پہلے نصف حصے اور آخری اوورز میں کسی حد تک ہدف بڑھانے کی کوشش کی لیکن وسط کے 7 اوورز حیران کُن طور پر سست رہے جنہوں نے پاکستان ٹیم کی جیت کے امکانات کو شدید نقصان پہنچایا۔

بھارتی اوپنرز ابھیشیک شرما اور شبمن گل نے دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم کے چاروں اطراف شاٹس لگا کر پاکستان کی باؤلنگ لائن کا شیرازا بکھیر دیا۔ 10ویں اوور تک بھارتی ٹیم کی میچ پر مکمل گرفت تھی جبکہ اس نے کوئی وکٹ نہیں گنوائی تھی۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت بلے باز بناتا ہے جبکہ پاکستان زیادہ تر پاور ہٹرز تلاش کرتا ہے۔ پاکستانی ٹیم میں ایسے کھلاڑیوں کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے جو صرف گیندوں کو روکنا جانتے ہیں۔ جب دنیا کی بہترین ٹیمیں مخالف کے خلاف پوری اننگز میں جارحانہ بلے بازی کررہی ہیں تو ایسے میں یہ سمجھنا مشکل ہے کہ کیوں پاکستان اب تک پرانی طرز کی کرکٹ کھیل رہا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ اس سوال پر یہ جواب دے سکتا ہے کہ یہی ان کے پاس دستیاب بہترین کھلاڑی ہیں۔ تاہم پی سی بی کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ وہ جس نظام کو چلا رہا ہے، وہ کیوں اعلیٰ معیار کے بلے باز پیدا کرنے میں ناکام ہے جوکہ بین الاقوامی کرکٹ میں مسلسل اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں؟

اسے خود سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیوں وہ ہمارے بلے بازوں میں جارحانہ انداز اپنانے کی صلاحیت پیدا کرنے میں ناکام ہے کیونکہ آج کے دور کی کرکٹ اسی طرز کا مطالبہ کرتی ہے۔ اسے خود سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ پاکستان کے کھلاڑی اسپن باؤلنگ کے خلاف کھیلنے میں اس قدر ناکام کیوں ہیں؟

لیکن اگر تنقید کو ایک جانب کرتے ہوئے روشن پہلو دیکھیں تو سپر 4 مرحلے میں ہم نے پاکستان ٹیم کا جو روپ دیکھا، وہ مختلف اور ایک حد تک خوش آئند تھا۔ ہمارے ہٹرز بلے بازوں نے شروعات سے ہی جارحانہ شاٹس کھیلے۔ ہاں پچ تھوڑی سست تھی جس سے گیند بازوں کے لیے بہترین نہ تھی، اس لیے بیٹنگ کرنا آسان رہا۔

فخر زمان نے ایک مثال قائم کی۔ وہ نہ صرف کھیلنے آئے تھے بلکہ انہوں نے اٹیکنگ بلے بازی کی اور اپنی گرفت مضبوط کی۔ مایوس کُن طور پر جب وہ حریف پر دباؤ بڑھا رہے تھے تب تھرڈ امپائر کے غلط فیصلے کی وجہ سے انہیں پویلین لوٹنا پڑا کیونکہ تھرڈ امپائر کے مطابق گیند اگر گھاس پر گر کر وکٹ کیپر کے ہاتھ میں گئی ہے تو یہ یقینی طور پر آؤٹ ہے۔

یہ کرکٹ کے غیرتحریر شدہ قوانین کی ایک اور مثال تھی جن کے مطابق اگر آؤٹ یا ناٹ آؤٹ کے حوالے سے کوئی شک ہے تو اس کا فائدہ بلے باز نہیں بلکہ بھارتی ٹیم کو ملنا چاہیے۔

فخر زمان کا جوش، صاحبزادہ فرحان کو نئی توانائی بخشنے کے لیے کافی تھا۔ پاکستان نے صائم ایوب کو تیسرے نمبر پر کھلانے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا تھا اور صاحبزادہ فرحان نے پاکستان کی اننگز کی مضبوط بنیاد رکھی۔

صاحبزادہ فرحان نے گزشتہ ہفتے بھی یادگار چھکا لگا کر دنیائے کرکٹ کے پریمیئر فاسٹ باؤلر پر اپنا تسلط ثابت کیا تھا۔ یہ جسپریت بمراہ کے لیے ایک اور مشکل لمحہ تھا جو ایک بہترین یارکر کرنے کے علاوہ نہیں جانتے تھے کہ صاحبزادہ فرحان کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔

جب صائم ایوب، فرحان کے ساتھ پچ پر بلے بازی کرنے آئے تو پاکستان کے اہم ہٹر جو اب باؤلنگ لائن کا ناگزیر حصہ بھی بن چکے ہیں، ثابت قدمی سے کھیلتے رہے۔ دونوں کی شراکت داری نے پاکستان کو 10 اوورز میں 93 رنز تک پہنچایا۔ بدقسمتی سے 10 اوورز کے روایتی وقفے کے بعد اننگز ڈگمگا گئی۔

پاکستان کی رفتار سست ہوگئی۔ سب سے پہلے صائم ایوب خود سے منسوب نو لُک شاٹ مارنے کی خواہش میں اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔ شاید انہیں کچھ وقت کے لیے یہ شاٹ مارنے سے گریز کرنا چاہیے۔

اس کے بعد بھارتی اسپنرز اور جز وقتی باؤلرز نے ہماری بیٹنگ کو سست کردیا کیونکہ پاکستانی کھلاڑی روک روک کر کھیلنے لگے اور زیادہ محتاط ہوگئے۔

مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی تھنک ٹینک بائیں اور دائیں بازو کے بلے بازوں کے امتزاج کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی پر بہت زیادہ توجہ مرکوزکیے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ سے خاص طور پر محمد نواز کو بیٹنگ آرڈر میں اوپر بھیجا گیا اور اس فیصلے کے اُلٹ نتائج سامنے آئے۔

یہ اننگز کے وسط کے 7 اوورز ہی تھے جنہوں نے پاکستان کے امکانات کو نقصان پہنچایا۔ صاحبزادہ فرحان مایوس اور تھک گئے جبکہ ان کے ہاتھ کی انجری نے بھی ان کے کھیل کو متاثر کیا۔ محمد نواز کے ساتھ کپتان سلمان علی آغا نے اننگز کو مستحکم رکھنے کی کوشش کرکے غلط فیصلہ کیا۔

اننگز مستحکم کرنا ایک بات ہے لیکن 40 گیندوں پر کوئی باؤنڈری اسکور نہ کر پانا کرکٹ کی منطق کے خلاف جرم ہے۔

پاکستان کے لیے افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وہ بھلا کرکٹر کے طور پر کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں لیکن سلمان علی آغا ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے لیے فٹ نہیں ہیں۔ اسی طرح یہ بھی واضح نہیں کہ محمد نواز کو بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی نااہلی کو ثابت کرنے کے لیے مزید کتنی بار ایسی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگلے ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ کا انتخاب کرتے وقت ان غلطیوں کو درست کرنا ضروری ہے۔

پھر بھی پاکستان 171 کا موزوں ہدف دینے میں کامیاب ہوا۔ یہ بڑی حد تک نواز کی مرہونِ منت ممکن ہوا جو عظیم انضمام الحق کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کریز پر سست انداز میں بھاگ کر رن آؤٹ ہوگئے۔

پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ اگلے نمبر پر آنے والے فہیم اشرف الگ ہی موڈ میں تھے اور انہوں نے 8 گیندوں پر 20 رنز بنائے۔ فہیم اس لیے کامیاب رہے کیونکہ ان میں بھارتی باؤلنگ کے خلاف جارحانہ کھیل کھیلنے کا جذبہ تھا جبکہ سلمان آغا اور نواز یہی کام کرنے سے قاصر رہے۔

فہیم، فخر اور صاحبزادہ فرحان کی جانب سے اسمارٹ اور بےخوف جارحانہ کھیل جبکہ نواز اور سلمان آغاز کی سست کرکٹ کی مدد سے پاکستان نے ایک مناسب ہدف دیا۔ تاہم جیسا پاکستان کو آغاز ملا تھا اس اعتبار سے حریف کو دیے جانے والے ہدف میں 20 رنز کم تھے۔

یہ سمجھ سے بالاتر تھا کہ محمد حارث اور شاہین شاہ آفریدی جیسے ہٹرز کو پچ پر نہیں بھیجا گیا جبکہ روک روک کر بلے بازی کرنے والوں نے ایک بار پھر بھارتی باؤلرز کی کھیل میں واپسی کی راہ ہموار کی۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ بھارت نے 4 آسان کیچز ڈراپ کرکے پاکستان کی مدد کی۔

شاید پاکستانی ٹیم تبدیلی کے مراحل میں ہے لیکن بیٹنگ اور حکمت عملی کے مسائل نے اسے دوسرے درجے کی ٹیم بنا کر رکھ دیا ہے۔

باؤلنگ میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن ہٹرز کی دائمی ناکامی اور روک روک کر بلے بازی کرنے کے طرز نے یہ اندازہ لگانا مشکل بنادیا ہے کہ باؤلنگ کو کیسے بہتر بنانا ہے۔ پاکستان اب بھی فائنل کے لیے کوالیفائی کرسکتا ہے لیکن یہ سرپرائز ہوگا جبکہ اس وقت پاکستانی ٹیم اس نے بالکل بھی فائنل میں رسائی کی حقدار نہیں ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

کامران عباسی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔