کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ نے اینکرپرسن امتیاز میر پر فائرنگ کے واقعے کا نوٹس لے لیا
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی کے علاقے ملیر میں گزشتہ رات میٹرو ون نیوز کے اینکرپرسن امتیاز میر پر ہونے والے حملے کا نوٹس لے لیا، جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔
سعودآباد تھانے کی جانب سے رات گئے جاری بیان کے مطابق ملیر کے علاقے کالا بورڈ میں نامعلوم مسلح افراد نے امتیاز میر کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا، بیان کے مطابق ’یہ ایک ٹارگٹڈ حملہ لگتا ہے‘، تاہم مزید تحقیقات جاری ہیں۔
وزیر اعلیٰ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے بتایا کہ مراد علی شاہ نے ’سینئر صحافی امتیاز میر پر قاتلانہ حملے‘ کا نوٹس لے لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس غلام نبی میمن سے رپورٹ طلب کر لی۔
اسٹین ہاؤس افسر (ایس ایچ او) سعودآباد عتیق الرحمٰن نے ڈان کو بتایا کہ ’صحافی کو نجی ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل کیا گیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ امتیاز میر کو دو گولیاں لگیں، جن میں سے ایک منہ پر لگی، ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنی گاڑی میں سفر کر رہے تھے، جو ان کے بھائی چلا رہے تھے، اس دوران موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے کالا بورڈ کے علاقے میں انہیں نشانہ بنایا’
وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے آج ایک بیان میں حملے کی مذمت کی اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا، انہوں نے مشرقی ضلع کے ڈپٹی آئی جی سے بھی رپورٹ طلب کی۔
ضیا لنجار کا مزید کہنا تھا کہ ’صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی حفاظت ہر قیمت پر یقینی بنائی جائے۔‘
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’شہریوں کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے، جبکہ ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ پولیس کو ہدایت دی گئی ہے کہ حملے کی وجوہات کو بھی سامنے لایا جائے۔
واضح رہے کہ مئی میں شکارپور پولیس نے ڈاکو شیرُو مہر کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا، جسے سینئر صحافی جان محمد مہر کے قتل کیس میں بطور مرکزی ملزم نامزد کیا گیا تھا۔
صحافی سندھی زبان کے نیوز نیٹ ورک کے ٹی این نیوز سے وابستہ تھے، انہیں 14 اگست 2024 کی شام دفتر سے نکلنے کے بعد نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
اپریل میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے ایک مذہبی جماعت کے حامیوں کی طرف سے صحافیوں کو دی جانے والی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
اسی ماہ خیرپور پولیس نے پانچ ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جن پر اردو نیوز چینل کے صحافی اللہ ڈنو شر عرف اے ڈی شر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔
اے ڈی شر کو ایک روز قبل علی آباد میں تھری میرواہ تھانے کی حدود میں قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد خیرپور ضلع کے پریس کلبوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔
گزشتہ سال نومبر میں 92 نیوز ٹی وی چینل کے سینئر رپورٹر ندیم احمد پر کراچی کے کارساز علاقے میں فائرنگ کی گئی تھی، جس میں وہ زخمی ہو گئے تھے۔
کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشی ایٹو کی رواں ماہ کے اوائل شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2006 سے 2023 کے دوران پاکستان میں 87 صحافیوں کو قتل کیا گیا، جن میں سے صرف 2 کیس ’حل‘ ہو سکے۔