دنیا

فرانس نے فلسطین کو بطورِ آزاد ریاست تسلیم کرلیا

فرانسیسی صدر نے نئی فلسطینی اتھارٹی کے لیے ایک فریم ورک پیش کیا، فرانس اصلاحات، جنگ بندی اور غزہ میں قید تمام قیدیوں کی رہائی جیسے عوامل کی بنیاد پر ایک سفارتخانہ کھولے گا۔

فرانس نے ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے فلسطین کو بطورِ آزاد ریاست تسلیم کرلیا، یہ اعلان نیویارک میں ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس کے دوران کیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق فرانس اور موناکو نے پیر کے روز ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس میں باضابطہ طور پر فلسطین کو آازاد ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اس موقع پر کہا کہ ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانی ہوں گی تاکہ دو ریاستی حل کے امکان کو محفوظ رکھا جا سکے، جہاں اسرائیل اور فلسطین امن اور سلامتی کے ساتھ ساتھ رہ سکیں، یہ اعلان کرتے ہی شرکا نے زور دار تالیاں بجائیں۔

فرانسیسی صدر نے نئی فلسطینی اتھارٹی کے لیے ایک فریم ورک پیش کیا، جس کے تحت فرانس اصلاحات، جنگ بندی اور غزہ میں قید تمام قیدیوں کی رہائی جیسے عوامل کی بنیاد پر ایک سفارتخانہ کھولے گا۔

اینڈورا، بیلجیم، لکسمبرگ اور سان مارینو سے بھی توقع ہے کہ وہ اس ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قبل فلسطین کو تسلیم کریں گے، اس سے قبل ہفتے کے اختتام پر آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال اور مالٹا نے بھی ایسا کیا۔

پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وزیر خارجہ اسحاق ڈار مقررین میں شامل نہیں تھے، اس اجلاس میں ترکیہ، آسٹریلیا، برازیل اور کینیڈا سمیت کئی ممالک کے سربراہان اور وزرائے اعظم شریک تھے۔

وزیراعظم شہباز شریف پیر کو نیویارک پہنچے لیکن اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے کانفرنس میں بھرپور شرکت کی۔

وزیر خارجہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر متعدد ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلانات کا خیر مقدم کیا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان 1988 میں آزادی کے اعلان کے بعد فلسطین کو تسلیم کرنے والے ابتدائی ممالک میں شامل تھا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ دیگر ممالک بھی اسی طرح بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے یہ قدم اٹھائیں۔

یہی مطالبہ فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی کیا، جنہوں نے امریکی ویزا نہ ملنے کے بعد ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس سے خطاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان تمام ممالک سے اپیل کرتے ہیں جو ابھی تک ایسا نہیں کر پائے کہ وہ بھی یہ اقدام کریں، ہم آپ کی حمایت کے طلبگار ہیں تاکہ فلسطین اقوام متحدہ کا مکمل رکن بن سکے۔

انہوں نے وعدہ کیا کہ جنگ بندی کے ایک سال کے اندر اصلاحات اور انتخابات کرائے جائیں گے۔

یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوئی ہے، جب مغربی طاقتوں نے دہائیوں پرانی پالیسی سے ہٹ کر فلسطین کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

برطانیہ، جس نے 1917 کے بالفور اعلامیے کے ذریعے اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی تھی، اس نے بھی پیر کو لندن میں فلسطینی سفارتخانہ کھول دیا۔

یہ اعلیٰ سطحی اجلاس جولائی میں ہونے والی ایک سمٹ کے بعد منعقد ہوا، جس میں نیویارک اعلامیہ کا مسودہ تیار کیا گیا تھا اور بعد ازاں 12 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسے منظور کیا۔

اسی روز وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز میں دولت مشترکہ وزرائے خارجہ اجلاس میں بھی شرکت کی۔

انہوں نے قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی کی میزبانی میں ہونے والی مشاورت میں بھی شرکت کی، جس میں اردن اور یو اے ای کے نائب وزرائے اعظم اور مصر، انڈونیشیا، سعودی عرب اور ترکیہ کے وزرائے خارجہ شامل تھے، اس موقع پر انہوں نے کینیڈین ہم منصب انیتا آنند سے بھی ملاقات کی۔

ٹرمپ سے ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک کثیرالجہتی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے، جس کا اعلان وائٹ ہاؤس اور پاکستانی سفارت کاروں نے پیر کو کیا۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیوٹ نے اجلاس کے ایجنڈے کی وضاحت نہیں کی، تاہم ذرائع کے مطابق غزہ میں اسرائیلی جنگ اہم موضوع ہوگا۔

اس اجلاس میں پاکستان، ترکیہ، قطر، سعودی عرب، انڈونیشیا، مصر، یو اے ای اور اردن سمیت آٹھ مسلم اکثریتی ممالک کے رہنما شریک ہوں گے۔

ٹرمپ اس اجلاس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بھی خطاب کریں گے، لیوٹ کے مطابق صدر اپنے خطاب میں یہ بتائیں گے کہ کس طرح عالمی ادارے دنیا کے نظام کو بگاڑ چکے ہیں اور وہ دنیا کے لیے ایک سیدھی اور تعمیری بصیرت پیش کریں گے۔

ٹرمپ نے برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کی مخالفت کی ہے اور پیر کو فرانس کے فیصلے پر بھی ایسا ہی موقف اپنایا۔

لیوٹ نے کہا کہ صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر کے ساتھ بھی اس پر کھلے عام اختلاف کیا۔

ان کا صاف الفاظ میں کہنا تھا کہ صدر سمجھتے ہیں کہ یہ حماس کو انعام دینے کے مترادف ہے، ان کے خیال میں یہ فیصلے محض باتیں ہیں اور ہمارے کچھ دوستوں اور اتحادیوں کی طرف سے کوئی عملی قدم نہیں، آپ کل اقوام متحدہ میں ان سے یہی بات سنیں گے۔

پرچم کشائی

اسی دوران پیر کو لندن میں فلسطینی مشن کے باہر پرچم کشائی کی تقریب بھی منعقد ہوئی، یہ تقریب فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے کے ایک دن بعد رکھی گئی۔

مشن کے سربراہ حسام زملوط نے اس دیرینہ فیصلے کو تاخیر سے کیا گیا مگر ناگزیر اعتراف قرار دیا، جب غزہ کی جنگ میں فلسطینی عوام ناقابلِ تصور تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے فلسطینی ریاست کے سفارتخانے کی تختی اٹھا کر دکھائی اور کہا کہ یہ جلد ہی عمارت پر لگادی جائے گی، بس کچھ قانونی اور دفتری مراحل باقی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کا یہ اقدام اس لیے بھی اہم ہے کہ 1917 کے بالفور اعلامیے کے ذریعے اسرائیل کے قیام کی بنیاد رکھنے میں برطانیہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

برطانوی وزیر خارجہ یویٹ کوپر نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اب برطانیہ میں سفارتخانہ اور سفیر مقرر کر سکتی ہے۔

برطانیہ کی وزارت خارجہ نے بھی اتوار کو اپنے سفری ہدایات کے صفحے پر تبدیلی کرتے ہوئے قبضہ شدہ فلسطینی علاقے کا حوالہ ہٹا دیا اور اس کی جگہ فلسطین لکھ دیا۔

لندن میں فلسطینی مشن کو سفارتخانے کا درجہ مل گیا، فلسطین کا پرچم لہرا دیا گیا

فلسطینی ریاست کے حق میں بڑھتی حمایت، دو ریاستی حل پر عالمی سربراہی اجلاس آج ہوگا

اقوام متحدہ کی کانفرنس میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور، امریکا اور اسرائیل کا بائیکاٹ