دنیا

غزہ میں ہولناکیاں تیسرے خوفناک سال میں داخل ہو رہی ہیں، انتونیو گوتریس

یہ ہولناکیاں ایسے فیصلوں کا نتیجہ ہیں جو بنیادی انسانیت کو رد کرتے ہیں، میری بطور سیکریٹری جنرل مدت میں یہ موت اور تباہی کا سب سے بڑا پیمانہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی کے اجلاس سے افتتاحی خطاب

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ دنیا ایک انتشار انگیز دور سے گزر رہی ہے، غزہ میں ہولناکیاں تیسرے خوفناک سال میں داخل ہو رہی ہیں۔

سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان ( اے پی پی ) کے مطابق سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ دنیا ایک انتشار انگیز دور گزر رہی ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ تعاون کے ذریعے تبدیلی ممکن ہے۔

انہوں نے 193 رکنی اسمبلی کو بتایا کہ’ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جو انتشار اور مسلسل انسانی مصائب سے عبارت ہے، اقوامِ متحدہ میں آپ کے وضع کردہ اصول محاصرے میں ہیں۔’

ہر سال ستمبر میں ریاستوں اور حکومتوں کے سربراہان نیویارک میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں جہاں وہ اپنی عالمی ترجیحات پیش کرتے ہیں۔ سیکریٹری جنرل کی افتتاحی تقریر روایتی طور پر اجلاس کا ماحول متعین کرتی ہے۔

اس سال جب اقوام متحدہ اپنی 80 ویں سالگرہ منا رہا ہے، انتونیو گوتریس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ادارے کے قیام کو یاد کیا، جب ممالک نے اسے ’ انسانیت کے بقا کی عملی حکمتِ عملی’ کے طور پر قائم کیا تھا۔

اپنی وسیع البنیاد تقریر میں انہوں نے کچھ سب سے اہم مسائل کی نشاندہی کی جن میں خود مختار ریاستوں پر حملے، بھوک کو ہتھیار بنانا، سچائی کو دبانا اور بڑھتے سمندر جو ساحلی علاقوں کو نگل رہے ہیں شامل ہیں۔

انہوں نے تین جاری جنگوں، غزہ، یوکرین اور سوڈان کا ذکر کیا جو اس سال اقوامِ متحدہ کی 80 ویں سالگرہ پر چھائی ہوئی ہیں اور کہا کہ تینوں تنازعات کا اختتام صرف سفارت کاری کے ذریعے ممکن ہے۔

لیکن انہوں نے اپنی سب سے سخت باتیں اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ کے لیے محفوظ رکھیں، جہاں فلسطینی تباہ کن مصائب سے دوچار ہیں اور اقوامِ متحدہ نے اپنی تاریخ میں کسی بھی تنازع میں سب سے زیادہ عملہ کھویا ہے۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ’ غزہ میں یہ ہولناکیاں تیسرے خوفناک سال میں داخل ہو رہی ہیں، یہ ایسے فیصلوں کا نتیجہ ہیں جو بنیادی انسانیت کو رد کرتے ہیں، میری بطور سیکریٹری جنرل مدت میں یہ موت اور تباہی کا سب سے بڑا پیمانہ ہے۔’

انتونیو گوتریس کی تقریر نے اقوامِ متحدہ کی بطور ایک اہم فورم قدر کو اجاگر کیا، جہاں دنیا ایک چھت کے نیچے جمع ہوتی ہے، انہوں نے رہنماؤں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ ادارہ اور اس کے اصول ، کثیرالجہتی، انسانی حقوق، ترقی اور امداد، اب بھی محفوظ رکھنے اور مضبوط کرنے کے قابل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ’ آئیے مل کر ایک ایسی اقوامِ متحدہ میں سرمایہ کاری کرنے کا انتخاب کریں جو ڈھلے، اختراع کرے اور دنیا کے ہر انسان کے لیے خدمات فراہم کرنے کے قابل ہو۔’

انتونیو گوتریس کے پاس اقوامِ متحدہ کے سربراہ کی حیثیت سے تقریباً 15 ماہ باقی ہیں اور وہ اس وقت ایک نہایت نازک دور میں ہیں جس میں کئی چیلنجز اور بحران شامل ہیں۔

عالمی ادارے کو اپنی بنیادی ذمہ داری، تنازعات کو روکنے اور ان میں ثالثی کرنے، کو پورا کرنے کی اہلیت اور اہمیت کے بارے میں سوالات کا سامنا ہے، یہ مسائل زیادہ تر سلامتی کونسل میں بڑی طاقتوں کی تقسیم کا نتیجہ ہیں، لیکن اس نے اقوامِ متحدہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔

سیکریٹری جنرل کو اس وقت شدید مالی بحران کا بھی سامنا ہے اور انہوں نے 2026 کا بجٹ دوبارہ ترتیب دے کر تقریباً 50 کروڑ ڈالر کم کیے ہیں، وہ ایک پُرجوش اصلاحاتی منصوبے UN80 کی قیادت کر رہے ہیں جس کے ذریعے کچھ سرگرمیاں محدود ہوں گی اور دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے عملے اور پروگراموں میں بڑی کٹوتیاں کی جائیں گی۔

انتونیو گوتریس نے پہلی ٹرمپ انتظامیہ کے دوران احتیاط سے کام لیا تھا اور انہیں امید تھی کہ مزید دوستانہ امریکی حکومتیں آئیں گی، لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ واپس آگئے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے لیے ان کی کچھ پالیسیاں اور فنڈنگ کٹوتیاں پہلے سے بھی زیادہ جارحانہ ہیں۔

یہ دونوں رہنما آج بعد میں ملاقات کرنے والے ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی ملاقات ہوگی، اس ملاقات کا نتیجہ اقوام متحدہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان کام کے تعلقات پر نمایاں اثر ڈال سکتا ہے، اور انتونیو گوتریس نے ایک پہلے نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ امن قائم کرنے کی شراکت داری کی امید رکھتے ہیں۔

گوتریس نے اپنی تقریر کا اختتام ایک پُرعزم لہجے میں کیا ’ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے، امن کے لیے، وقار کے لیے، انصاف کے لیے، انسانیت کے لیے، میں کبھی ہار نہیں مانوں گا۔’

انہوں نے اپنی تقریر کو اس اصلاحاتی منصوبے UN80 اور اقوامِ متحدہ کے بجٹ میں ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ختم کیا کیونکہ ادارہ مالی بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس اعتراف کا مقصد یہ اعتماد پیدا کرنا تھا کہ اقوام متحدہ اپنے مسائل سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدامات کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’چیلنج کچھ بھی ہو، رکاوٹ کوئی بھی ہو، وقت کیسا بھی ہو، ہم ضرور، قابو پائیں گے۔‘