دنیا

پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی مغربی ممالک منتقلی کی امیدیں دم توڑ گئیں

پاکستان افغانوں کو رہنے دے گا اگر مغربی ممالک حکومت کو یقین دہانی کرائیں کہ وہ انہیں دوبارہ آباد کریں گے، سرکاری اہلکار

اسلام آباد میں مقیم ہزاروں افغان پناہ گزین مغربی ممالک میں منتقلی کے انتظار میں غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے پر شائمہ اور اس کا خاندان اپنی آوازیں دھیما رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ پڑوسی ان کی افغان مادری زبان نہ سن لیں، لیکن وہ کسی بھی وقت باب ڈیلن کا گانا ’دی ٹائمز دے آر اے-چینجنگ‘ بلند آواز میں گنگنا سکتی ہیں اور کوئی یہ اندازہ بھی نہیں لگا پائے گا کہ یہ ایک 15 سالہ روپوش پناہ گزین گا رہی ہے۔

اپنی بہن اور دیگر کم عمر بینڈ ممبرز کے ہمراہ شائمہ نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ انہیں کچن میں گانے کی آواز بہت اچھی لگتی ہے۔

اب تک شائمہ کو اپنے نئے گھر نیویارک میں گانے کی مشق کرنی چاہیے تھی، مگر اس کے خاندان کی فروری میں طے شدہ پرواز سے قبل، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر معینہ مدت کے لیے پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی لگا دی، جس کے باعث اسلام آباد سے اڑان بھرنے کے لیے تیار تقریباً 15 ہزار افغان پھنس گئے۔

ہزاروں مزید افراد اب بھی شہر میں مغربی ممالک میں منتقلی کے منتظر ہیں، لیکن پناہ گزینوں کے حوالے سے دنیا کے بدلتے رویے نے ان کے امکانات کم کر دیے ہیں اور انہیں پاکستان کی جانب سے ممکنہ طور پر دوبارہ ملک بدری کی مہم کا خطرہ لاحق ہے، جہاں وہ پہلے ہی اپنی میزبانی کی حد ختم کر چکے ہیں۔

لڑکیوں اور خواتین کے لیے یہ منظرنامہ خاص طور پر تباہ کن ہے، واپسی ایک ایسے ملک میں جہاں انہیں زیادہ تر تعلیم اور روزگار سے محروم کر دیا گیا ہے۔

شائمہ کی 19 سالہ بینڈ ممبر زہرا نے کہا کہ ہم چھپنے کے لیے جو بھی کرنا پڑا کریں گے، ہماری جیسی لڑکیوں کے لیے افغانستان میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔

عارضی کیمپ نہیں

2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد، ہزاروں افغان پاکستان آئے تاکہ مغربی سفارت خانوں میں پناہ اور حفاظت کے لیے درخواستیں جمع کرا سکیں، زیادہ تر حکام کے مشورے پر۔

ان میں سے بہت سے لوگ امریکی قیادت میں نیٹو فورسز یا مغربی این جی اوز کے ساتھ کام کر چکے تھے جب کہ دیگر کارکن، موسیقار یا صحافی تھے۔

چار سال گزر جانے کے بعد بھی ہزاروں افغان افراد زیادہ تر اسلام آباد یا اس کے مضافات میں منتظر ہیں کہ کوئی سفارت خانہ آگے بڑھے گا اور انہیں محفوظ پناہ دے گا۔

حالیہ ہفتوں میں سیکڑوں افراد کو گرفتار کر کے ملک بدر کیا جا چکا ہے، اسی لیے انٹرویو دینے والوں کو تحفظ کے لیے فرضی نام دیے گئے ہیں۔

ایک پاکستانی سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ کوئی غیر معینہ مدت کا عبوری کیمپ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغانوں کو رہنے دے گا اگر مغربی ممالک حکومت کو یقین دہانی کرائیں کہ وہ انہیں دوبارہ آباد کریں گے، متعدد ڈیڈ لائنز پر اتفاق ہوا مگر ان پر عمل نہ کیا گیا۔

موسیقی سے محبت

سماجی پابندیوں کے باوجود شائمہ اور اس کی بہن لیلیمہ نے ایک امریکی سابق راک گلوکار کے بعد از اسکول لیکچرز میں شرکت کی، مگر طالبان کی واپسی کے بعد انہیں پاکستان منتقل ہونا پڑا۔

دس بہن بھائیوں میں سے ایک لیلیمہ نے خاندان کی مدد کے لیے سورج مکھی کے بیج فروخت کیے، اس نے ایک پلاسٹک کی بغیر تاروں والی گٹار کو سنبھال رکھا تھا، جب تک کہ اسے اصل گٹار نہیں ملا۔

مگر طالبان حکومت کے انتقام کے خوف سے، جو موسیقی کو غیر اسلامی سمجھتی ہے، لیلیمہ کے والد نے اس کا گٹار جلا دیا۔

16 سالہ لیلیمہ نے کہا کہ والد کے گٹار جلانے پر وہ ساری رات روتی رہی۔

اپریل 2022 میں امریکا میں پناہ گزین کا درجہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان آنے کے بعد سے شائمہ اور اس کے ساتھیوں کو چار بار رہائش بدلنی پڑی اور وہ مزید روپوشی میں چلے گئے۔

2023 میں جب پاکستان نے کریک ڈاؤن شروع کیا تو امریکی سفارت خانے نے حکومت کو ان افغانوں کی فہرست دی جو ان کے پراسیس میں شامل تھے اور جنہیں گرفتار یا نکالا نہیں جانا چاہیے تھا، لیکن ایک سابق امریکی اہلکار کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے وہ دفتر اور اس کی دی ہوئی سہولتیں ختم کر دیں۔

ایڈووکیسی اتحاد افغان ایوک کی جیسیکا بریڈلی رشنگ نے کہا کہ ان پناہ گزینوں کو غیر یقینی صورتحال میں چھوڑ دینا صرف بلا وجہ ہی نہیں بلکہ ظالمانہ بھی ہے۔