دنیا

ارجنٹینا میں مگرمچھ کو جبڑوں میں دبائے ہوئے ڈائنو سار کا فوسل دریافت

جواکوئین ریپٹر کے شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میگاراپٹرنز 6 کروڑ 60 لاکھ سال قبل اس وقت تک زندہ رہے جب ایک شہابِ ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں ڈائنو سارز کا عہد ختم ہو گیا، محقق

ارجنٹینا میں دریافت ہونے والے ایک نئے گوشت خور ڈائنو سار کی فوسل نے کریٹیشیس دور کے ایک ایسے شکاری گروہ کے بارے میں نئی معلومات فراہم کی ہیں جسے ماہرین اب تک زیادہ نہیں سمجھ سکے تھے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق یہ دریافت اس ڈائنو سار کی مکمل کھوپڑی کے ڈھانچے کے ساتھ ساتھ اس حیران کن چیز کی بدولت بھی اہم ہے جو اس کے جبڑوں میں دبی ہوئی ملی، جو کہ ایک مگرمچھ کی ٹانگ ہے۔

اس ڈائنو سار کو جواکوئین ریپٹر کاسالی (Joaquinraptor casali) کا نام دیا گیا ہے، جو تقریباً 6 کروڑ 70 لاکھ سال قبل موجودہ وسطی پیٹاگونیا (ارجنٹینا) میں رہتا تھا، یہ ڈائنو سار لمبائی میں تقریباً 23 فٹ اور وزن میں ایک ٹن کے قریب تھا۔

ماہرین کو اس کے جبڑوں میں ایک بڑے مگرمچھ نما جاندار کی ٹانگ ملی، جس سے یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید یہ ڈائنو سار شکار کھاتے ہوئے کسی طرح (ممکنہ طور پر دم گھٹنے سے) ہلاک ہو گیا۔

جواکوئین ریپٹر (جسے ’واکین ریپٹر‘ پڑھا جاتا ہے) گوشت خور ڈائنو ساروں کے ایک گروہ میگاراپٹرنز سے تعلق رکھتا تھا جو جنوبی امریکا، ایشیا اور آسٹریلیا میں پائے جاتے تھے، ان کے لمبے بازو اور 3 انگلیوں پر بڑے نوکیلے پنجے ہوتے تھے، ان کی کھوپڑیاں لمبوتری اور نسبتاً ہلکی ہوتی تھیں، جبکہ ان کے دانت دوسرے بڑے گوشت خور ڈائنوسارز کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے تھے۔

اس تحقیق کے مرکزی مصنف انسٹی ٹیوٹو پیٹاگونیکو دی جیولوجیا و پیلیونٹولوجیا، چوبوت (ارجنٹینا) کے ماہر ارضیات و فوسل سائنسدان لوسیئو ایبیری ہیں، جن کی تحقیق منگل کو جریدہ نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئی، نے کہا ہے کہ ’میگاراپٹرنز ان ڈائنو سارز میں شامل ہیں جنہیں سب سے کم سمجھا گیا ہے‘۔

اس گروہ کا سب سے قدیم رکن تقریباً 13 کروڑ سال پہلے پایا جاتا تھا، جواکوئین ریپٹر کے شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میگاراپٹرنز 6 کروڑ 60 لاکھ سال قبل اس وقت تک زندہ رہے جب ایک شہابِ ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے نتیجے میں ڈائنوسارز کا عہد ختم ہو گیا۔