پاکستان

سینیٹ قائمہ کمیٹی کی سیلاب سے متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارش

چاروں صوبوں میں 2.5 ملین ایکڑ اراضی سیلاب سے متاثر ہوئی، پنجاب میں زیادہ تر چاول، گنا اور مکئی کی فصلوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے، وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی

سینیٹ قائمہ کمیٹی نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے ملک بھر کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارش کر دی۔

مسرور احسن کی زیرِ صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں ملک بھر میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاری سے فصلوں پر ہونے والے منفی اثرات پر بریفنگ دیتے ہوئے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ چاروں صوبوں میں 2.5 ملین ایکڑ اراضی سیلاب سے متاثر ہوئی، پنجاب میں زیادہ تر چاول، گنا اور مکئی کی فصلوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ جو اضلاع ملک میں متاثر ہوئے انہیں آفت زدہ قرار دیا جائے، چیئرمین کمیٹی نے ملک بھر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دینے کی سفارشات کردیں۔

قائمہ کمیٹی نے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی طرف سے بریفنگ پیپرز وقت پر نہ فراہم نہ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے سیکریٹری وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی سرزنش کی کہ اب ڈیجیٹل دور ہے اور وزارت 4 گھنٹہ پہلے بریف پیپرز جمع کروا رہی ہے۔

اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل پلانٹ پروٹیکشن کی تعیناتی کا معاملہ زیر بحث آیا، جس پر چیئرمین کمیٹی نے نئے ڈی جی کی تعیناتی کی سفارش کردی کہ جلد از جلد نیا ڈی جی تعینات کیا جائے۔

کمیٹی میں یورپی یونین سے چاولوں کی کھیپ میں انٹر سیپشن کا معاملہ زیر بحث آیا جس پر ڈی پی پی کے ڈاکٹر طارق نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ وزیر اعظم کی تشکیل کردہ کمیٹی کی انکوائری پر معطل افسر کمیٹی میں پیش ہوئے، کمیٹی کو بتایا کہ میری تعیناتی سے قبل کی کنسائنمٹ منسوخی پر مجھے سزا دی گئی۔

سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے بریفنگ دی کہ متعلقہ افسر بارے دو انکوائریاں تھی، ایک انکوائری کا معاملہ سیٹل ہوگیا، جو ذمہ داری بنتی تھی نافذ کردی، 2005 سے 2025 تک ایک لیبارٹری سے متعلق انکوائری تھی، اس کیس میں 49 افسران کے خلاف تحقیقات کی گئیں، اس انکوائری میں کچھ ریٹائرڈ لوگ بھی شامل تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیڈر افسران کے خلاف اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نےانکوائری کی تھی،ادارے کے افسران کے خلاف انکوائری وزارت کی جانب سے کی گئی تھی، اس انکوائری میں مجھے بھی شامل کیا گیا تھا، میں اس وقت وزارت میں بھی نہیں تھا، معاملہ اب تقریباً انکوائریوں کے بعد سیٹل ہو چکا ہے۔

مزید بتایا کہ ایسے نہیں ہو سکتا ان افسران کو نکال دیا گیا جن کا وہ کام نہیں تھا،انکوائریوں کا معاملہ تفصیلی ہے اس پر ایک سب کمیٹی بنائی جائے،سب کمیٹی سارے معاملہ کو دیکھ کر تفصیلی رپورٹ کمیٹی میں دے۔

قائمہ کمیٹی نے افسران کے خلاف انکوائریز کے معاملہ پر سب کمیٹی تشکیل دے دی۔

بعد ازاں اجلاس میں امپورٹ اور ایکسپورٹ ایسو سی ایشن اور دیگر خوراک سے متعلق تنظیموں کے عہدیداران نے وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی میں گزشتہ دو سالوں میں کئی بار تو سیکریٹری تبدیل ہوئے ہیں، جس پر سیکریٹری کو زراعت سے متعلق سمجھ آنے لگتی ہے اس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے۔

کمیٹی میں ریپ کے نمائندہ نے نیشنل ایگری ٹریڈ اینڈ فوڈ سیفٹی اتھارٹی آرڈیننس پر کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزارت فوڈ سیکیورٹی میں ہمیں بلا کر آرڈیننس پر رائے دینے کے لیے بلایا اور جب ہم وزارت پہنچے تو وہاں جوائنٹ سیکریٹری بلال حیدر نے ہمارا مائک بند کردیا۔

وزارت فوڈ سیکیورٹی میں بلا کر ریپ کے ایکسپورٹرز کے ساتھ حقارت والا رویہ رکھا گیا ہے، سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ ریپ کو وزیراعظم کے احکامات کے مطابق آرڈیننس پر رائے کے لیے شامل کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعظم کے احکامات کے باوجود یہ سب ریپ کے ساتھ ہوا تو سینیٹرز کی کیا اوقات ہوگی، اس سارے معاملہ پر جوائنٹ سیکریٹری اور جس نے بھی وزارت میں مائک بند کرنے پر انکوائری ہونی چاہیے۔

سینیٹ قائمہ کمیٹی نے سیکریٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی کو جوائنٹ سیکریٹری بلال حیدر اور دیگر متعلقہ لوگوں کے خلاف تحقیقات کے لیے انکوائری کا حکم دے دیا۔

کمیٹی میں ڈیری ایسو سی ایشن کے نمائندے نے قائمہ کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سب سے مہنگا دودھ پروڈیوس کیا جاتا ہے، پاکستان میں دودھ کی سیفٹی سے متعلق کوئی ریگولیشن اور پالیسی نہیں ہے، پاکستان میں اس وقت ایک بڑی تعداد سٹنٹڈ بچوں کی ہے، اگر ایسی صورتحال رہی تو بچہ کند ذہن ہوں گے،آئندہ 30 سال بعد یہ قوم کند ذہن قوم ہوگی۔

کمیٹی میں کسان اتحاد کے نمائندہ نے اظہار خیال خیال کرتے ہوئے کہا کہ گندم امپورٹ کروانے میں اصل ذمہ داران کے خلاف تو انکوائری ہوئی ہی نہیں ہے، 35 لاکھ سے زائد ٹن گندم امپورٹ کروائی گئی تھی، 2200 ارب کا کسان کو نقصان ہوا ہے ،زراعت اس وقت زبو حالی کا شکار ہے، اگلے سال کی گندم کی کاشت کے لیے کسان تیار ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت زراعت میں گروتھ سے متعلق سفید جھوٹ بولتی ہے،منفی 13.49 زراعت کی گروتھ ملک میں ہے، فروٹ اور سبزیوں کی 40 فیصد ایکسپورٹ میں کمی آئی ہے، زراعت کے ہر شعبہ میں ہم ایکسپورٹ کی طرف جا رہے ہیں، ہمسایہ ملک بھارت زراعت میں ترقی اس وجہ سے کررہا ہے کیوں کہ وہاں کسان خوشحال ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کسان اپنے بجلی کا بل تک ٹھیک نہیں کروا سکتا ہے، پاکستان میں کاشتکار کے ہزاروں کنیکشن ختم ہوچکے ہیں، اگر یہی صورتحال رہی تو پاکستان اپنی زراعت کے پروڈکٹس بھی امپورٹ کرے گا،پاکستان میں امپورٹ اور ایکسپورٹ سے متعلق ایک آزاد اتھارٹی بنائی جانی چاہیے۔