نقطہ نظر

پاک-بھارت فائنل سے قبل پاکستان ٹیم کو اپنی کون سی غلطیوں کو سدھارنا ہوگا؟

ٖتنازعات سے شروع ہونے والی دونوں ٹیموں کی مہم کا آخری دن، پاکستان کو جیتنا ہے تو ہر صورت بیٹنگ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ایشیا کپ کا 17واں ایڈیشن جس قدر تنازعات سے بھرپور رہا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر روز ایک نیا تنازع اور نئی خبر نے اس کی عزت و توقیر اتنی بڑھادی ہے کہ لوگ اب کرکٹ پر نہیں بلکہ اس سے جڑے شکوک و شبہات پر بات کررہے ہیں۔

ہاتھ ملانے سے لے کر ناخوشگوار اشاروں تک تنازعات نے اس ٹورنامنٹ کو گھیر رکھا ہے۔ آئی سی سی نے بھارتی کپتان کے الفاظ اور پاکستانی کھلاڑیوں کے اشاروں پر جرمانہ بھی کیا ہے جبکہ ان تنازعات کی تپش فائنل کے معرکے میں بھی نظر آئے گی۔

پاکستان ٹیم کے لیے یہ ایشیا کپ اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ ٹیم ناقص کارکردگی کے باوجود اٹک اٹک کر فائنل میں پہنچ چکی ہے جہاں وہ ایک بار پھر بھارت سے مقابلہ کرے گی۔ یہ ایشیا کپ کی 41 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ بھارت اور پاکستان فائنل میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔ پاکستان اس سے قبل دو دفعہ ٹرافی جیت چکا ہے جبکہ بھارت نے 8 مرتبہ یہ اعزاز اپنے نام کیا ہے۔

پاکستان اور بھارت رواں ٹورنامنٹ میں تیسری بار آپس میں کھیلیں گے۔ بھارتی ٹی وی براڈکاسٹر کے لیے یہ ایشیا کپ پکا ہوا پھل ثابت ہوا ہے۔ جتنی آمدنی ان تین میچز سے ہوگی اتنی تو وہ 10 سال میں بھی نہیں حاصل کرسکتے تھے۔ اس طرح موجودہ ایشیا کپ آمدنی کے اعتبار سے بھی تاریخی رہا ہے۔ اس کے دورانیہ کو بڑھانے کے لیے ہر روز ایک میچ رکھا گیا اور اضافی سپر 4 مرحلہ بھی رکھا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ کرکٹ دکھائی جاسکے جو کہ جوئے اور سٹے لگانے والی کمپنیز کا ہمیشہ مطالبہ ہوتا ہے۔

اگر قومی کرکٹ کی بات کریں تو پاکستان کی کارکردگی اس ٹورنامنٹ میں خاصی غیر معیاری رہی۔ ٹیم نے بلے بازی اور باؤلنگ میں خراب کارکردگی کے باوجود فائنل تک رسائی حاصل کرلی۔

بنگلہ دیش کی ٹیم جس نے ایک دن پہلے ہی بھارت کے خلاف شاندار کارکردگی دکھائی تھی، پاکستان کے خلاف ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ بنگلہ دیش نے اپنے سب سے بہترین باؤلر ناسم حسین کو پاکستان کے خلاف ڈراپ کرکے پاکستانی بلے بازوں کی آدھی مشکلات تو ویسی ہی کم کردی تھی لیکن اس کے باوجود پاکستان ٹیم بڑا اسکور نہ کرسکی۔

135 رنز کا ہدف ایک آسان ہدف تھا اور بنگلہ دیش کو سکون سے کھیلتے ہوئے اس ہدف کو حاصل کرنا تھا۔ 6 رنز سے کچھ زائد کا اوسط مشکل نہ تھا لیکن بنگلہ دیشی بلے بازوں نے احمقانہ بیٹنگ کا انتخاب کیا غیر ضروری ہوائی شاٹ اور ہر گیند پر چھکے لگانے کی کوشش میں معمولی ہدف ان کے لیے پہاڑ بن گیا۔

اسی طرح سری لنکا نے پاکستان کو فائنل تک پہنچانے کے لیے بدترین کرکٹ کھیلی جبکہ وہی ٹیم جب بھارت کے سامنے آئی تو تگنی کا ناچ نچا دیا۔

فائنل کی بازگشت

تنازعات سے شروع ہونے والی دونوں ٹیموں کی مہم کا آخری دن بھی کوئی خوشگوار نہیں ہوگا۔ دونوں ملکوں میں کروڑوں کرکٹ شائقین اتوار کا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔ وہ کرکٹ میں ہار جیت کو لے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف جیت کی طویل تاریخ کے حوالے ہیں اور دوسری طرف 0-6 کے اشارے!

پاک-بھارت کے میچ کی اہمیت اس قدر ہے کہ جہاں جہاں کرکٹ دیکھی جاتی ہے لوگ صرف اس پر بات کررہے ہیں۔ اگرچہ بھارتی کپتان پاکستان سے میچ کو مقابلہ سے عاری قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ رائیولری نہیں کیونکہ پاکستان کا بھارت سے مقابلہ ہی نہیں ہے۔ ان کے ان الفاظ نے سرحد کے دوسری طرف آگ لگادی ہے۔

آگ تو ان کے اُن الفاظ نے بھی لگائی جو انہوں نے پہلے میچ کی پوسٹ میچ تقریب میں کہے تھے لیکن ان پر آئی سی سی نے جرمانہ کرکے انہیں پابند کردیا ہے کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔

کیا فائنل واقعی یک طرفہ ہوگا؟

بھارتی کپتان کے غیر ذمہ دارانہ سیاسی بیان پر پاکستان اب تک میدان میں ٹھوس جواب نہیں دے سکا ہے۔ لفظی جنگ تو پاکستان نے بھی شروع کر رکھی ہے لیکن کارکردگی کے بغیر الفاظ میں وزن ہے نہ جان۔۔۔

شاہین شاہ آفریدی نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے فائنل میں تو پہنچ جاؤ پھر بات کرنا جبکہ بھارت اگلے دن ہی فائنل میں پہنچ گیا۔ تاہم اس کے اگلے روز پاکستان نے بھی اپنی جگہ بنالی لیکن دونوں میچز میں رنگ الگ الگ تھا۔ پاکستان نے میچ جیتا کیونکہ بنگلہ دیش کی ٹیم بیٹنگ بھول گئی تھی اور انہوں نے ایک آسان جیت کو شکست میں بدل دیا، اس میچ پر کرکٹ کی ذرا سی سدھ بدھ رکھنے والا حیران ہے اور اسے کرکٹ سے مذاق قرار دے رہا ہے۔

لیکن آخری گروپ میچ میں سری لنکا کے خلاف بھارتی باؤلنگ جس طرح غیر معیاری نظر آئی، اس کے بعد یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فائنل یکطرفہ ہوگا۔ سری لنکا جو پاکستان کے خلاف سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئی تھی، بھارت کے خلاف اپنی جرسی پر بنے شیر کی طرح دھاڑ رہی تھی۔ نوجوان بلے باز نسانکا نے جس انداز میں سنچری بنائی اس نے بھارتی باؤلنگ کو تہس نہس کردیا تھا۔ سری لنکا اگرچہ سپر اوور میں میچ ہار گیا لیکن اس نے بھارتی باؤلنگ کی قلعی کھول دی۔

فائنل میں پاکستانی بلے بازوں نے اگر نسانکا کی طرح بیٹنگ کی تو کوئی مشکل نہیں ہوگی کہ وہ بڑا اسکور نہ کرسکیں۔ آخری گروپ میچ میں اگرچہ جسپریت بمراہ نہیں کھیلے تھے لیکن اسپنرز کی کارکردگی بھی اچھی نہیں تھی۔ اس میچ کے بعد کم ازکم یہ تو واضح ہے کہ بھارتی باؤلنگ ناقابل تسخیر نہیں ہے۔

انڈین بیٹنگ البتہ ابھیشک شرما کے باعث بہت خطرناک ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اور بلے باز اتنا خطرناک نہیں ہے، اس لیے اگر پاکستان ابھیشک کو جلدی آؤٹ کرلیتا ہے تو بھارتی بیٹنگ لائن مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔ بھارتی کپتان سوریا کمار یادو سمیت اکثر بلے باز ناکام نظر آتے ہیں۔

پاکستان کی مشکلات

پاکستان ٹیم اپنی خراب ترین کارکردگی کے باوجود فائنل میں جس طرح پہنچی ہے، اس پر سب ہی حیران ہیں۔ اگر معیار پر بات کی جائے تو پاکستان کہیں بھی موزوں نہیں ہے۔ بیٹنگ زبوں حالی کا شکار ہے، اوپنر صاحبزادہ فرحان نے کچھ اچھی اننگز کھیلی ہیں لیکن فخر زمان جو عارضی اوپنر ہیں وہ ناکام ہیں۔ مستقل اوپنر صائم ایوب مسلسل صفر پر آؤٹ ہوکر ریکارڈ بنا چکے ہیں۔ انہیں ون ڈاؤن بنایا گیا تاکہ ٹیم میں برقرار رہیں لیکن وہاں بھی وہ ناکام ہیں۔

پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ مڈل اوورز میں سست بیٹنگ ہے۔ سلمان علی آغا اور حسین طلعت جارحانہ مزاج نہیں رکھتے ہیں اس لیے رنز کی رفتار سست رہتی ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بیٹنگ تو ٹیل اینڈرز پر چل رہی ہے۔

باؤلنگ البتہ مؤثر بھی ہے اور کسی حد تک اطمینان بخش بھی۔ شاہین آفریدی اور ابرار احمد نے اس ٹورنامنٹ میں عمدہ باؤلنگ کی ہے جبکہ جزوقتی باؤلر صائم ایوب بھی کارگر ثابت ہوئے ہیں۔

پاکستان کی اصل مشکل بیٹنگ کی غیر معیاری کارکردگی ہے اور یہی اس کے لیے فائنل میں پستی کا سبب بن سکتی ہے لیکن اگر بیٹنگ نے خود کو سنوار لیا تو نتیجہ غیر متوقع ہوسکتا ہے۔ پاکستان یقینی طور پر وہی ٹیم کھلائے گا جس نے بنگلہ دیش کو شکست دی تھی۔

پاکستان فائنل جیت کر سب کو حیران کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے بیٹنگ میں غیرمعمولی کارکردگی دکھانی ہوگی۔ پاکستان کے لیے سب سے اہم پاور پلے کا درست استعمال ہوگا۔ اگر پاکستان 60 سے زیادہ رنز پاور پلے میں بنا لیتی ہے تو باقی اوورز میں بڑا اسکور کرنا آسان ہوجائے گا اور باؤلنگ پر دباؤ بھی کم ہوگا۔ اگر ہدف کا تعاقب کرنا پڑا تب بھی بلے بازوں کے لیے پاور پلے کا درست استعمال بہت اہم ہوگا۔

سید حیدر

لکھاری جرمن نشریاتی ادارے سے منسلک ہیں، مختلف ٹی وی چینلز پر کرکٹ پر تبصروں کے لیے بطور مبصر شرکت کرتے ہیں اور کھیلوں پر ان کے تجزیے مختلف اشاعتی اداروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر Syedhaider512@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔